’عمران خان چین کے مسلمانوں پر بات کیوں نہیں کررہے؟‘

امریکی وزارت خارجہ میں جنوبی ایشیا کے لیے اعلیٰ عہدیدار ایلس ویلز نے سوال کیا ہے کہ عمران خان چین کے بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے جس نے 10 لاکھ اویغور مسلمانوں کو حراستی مراکز میں بند کر رکھا ہے؟

وزیر اعظم عمران خان سے اویغور مسلمانوں کے بارے میں سوال کیا گیا لیکن انہوں نے کسی تبصرے سے انکار کیا (اے ایف پی)

ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے مطابق امریکہ چاہتا ہے کہ بھارتی حکومت اپنے زیر انتظام کشمیر میں عائد پابندیوں میں فوری طور پر نرمی کرے۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود کشیدگی ختم کروانے کے لیے ثالثی پر تیار ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔ دونوں رہنما جمعے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو امریکی شہر ہیوسٹن میں ہونے والے بڑے ہندو قوم پرست جلسے میں شرکت کر کے بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنایا ہے۔ جلسے سے خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کے حوالے سے اپنے اقدامات پر فخریہ انداز میں بات کی۔

دوسری جانب امریکی عہدیدار نے کہا ہے امریکہ کو کشمیر میں لاک ڈاؤن پر تشویش ہے۔ امریکی وزارت خارجہ میں جنوبی ایشیا کے لیے اعلیٰ عہدیدار ایلس ویلز نے رپورٹروں کو بتایا کہ ہمیں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عائد پابندیوں کے خاتمے اور گرفتار افراد کی رہائی کے لیے فوری اقدامات کی امید ہے۔

تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ عمران خان چین کے بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے جس نے 10 لاکھ اویغور مسلمانوں کو حراستی مراکز میں بند کر رکھا ہے۔

ایلس ویلز نے کہا کہ ’میں مغربی چین کے مسلمانوں کے بارے میں بھی اسی سطح کی تشویش کا اظہار دیکھنا پسند کروں گی۔ ان مسلمانوں کو حقیقی معنوں میں حراست جیسے حالات میں رکھا گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین پاکستان کا بڑا سفارتی اور معاشی شراکت دار ہے۔ پیر کو ایک تھنک ٹینک میں وزیر اعظم عمران خان سے اویغور مسلمانوں کے بارے میں سوال کیا گیا لیکن انہوں نے کسی تبصرے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘ ہیں اور وہ یہ معاملہ غیر سرکاری سطح پر اٹھائے گا۔

امریکہ نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کو اویغور مسلمانوں کے ساتھ سلوک کے معاملے پر چین پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافے کے لیے ایک موقعے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ اور گواہ کہتے ہیں کہ چین اسلامی روایات کو دبانے اور اویغور مسلمانوں کو اکثریتی ہن آبادی کا حصہ بنانے کے لیے زبردستی کر رہا ہے جبکہ چین کا کہنا ہے کہ وہ اویغور مسلمانوں کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم اور انتہاپسندی کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔

اگست میں بھارت نے جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ کشمیر بھارت میں واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے جہاں بڑی تعداد میں سیاسی رہنما حراست میں ہیں جبکہ عام آدمی کے لیے مواصلاتی رابطوں پر پابندی ہے۔ اگرچہ کچھ پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے تاہم انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کو بند ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔

ایلس ویلز نے کہا کہ میں مغربی چین کے مسلمانوں کے بارے میں بھی اسی سطح کی تشویش کا اظہار دیکھنا پسند کروں گی (اے ایف پی)

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی عہدیدار ایلس ویلز نے کہا: ’امریکہ کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو حراست میں لینے پر تشویش ہے جن میں تاجر قائدین اور سیاسی رہنما شامل ہیں جبکہ جموں و کشمیر کے لوگوں پر پابندیاں عائد ہیں۔‘

’ہم مقامی قیادت کے ساتھ سیاسی رابطوں کی بحالی اور فوری موقعے کے طور پر انتخابات کے وعدے پر عمل کے لیے انتظامات کی خاطر بھارتی حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان منقسم علاقہ ہے جس پر دونوں ملکوں کے درمیان بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔

خصوصی تعلقات

کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشیا بھر میں جذباتی کیفیت ہے۔ دائیں بازو کے ہندو قوم پرست کارکن طویل عرصے سے کشمیر کی بھارت میں خصوصی حیثیت کے خاتمے کے حامی ہیں۔ پاکستانی سیاست دان کئی دہائیوں سے ہمالیائی خطے کے مسئلے پر سخت زبان استعمال کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان اپنے دورہ نیویارک کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سخت الفاظ میں مذمت کے موقعے پر استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مودی کے نظریات کو نازی جرمنی سے تشبیہہ دی ہے۔

امریکی عہدیدار ایلس ویلز نے وزیر اعظم عمران خان کے الفاظ کو غیرمدد گار قرار دیتے ہوئے کہا: ’بیان بازی میں کمی کا خیر مقدم کیا جائے گا، خاص طور پر دو ایٹمی ملکوں کے درمیان۔‘

ایلس ویلز نے کہا ہے کہ ’دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی اور مذاکرات کے فروغ سے دنیا کو فائدہ ہو گا۔ اس مقصد کے لیے اگر دونوں ملک کہیں تو امریکی صدر ثالثی کے لیے تیار ہیں۔‘

تاہم بھارت طویل عرصے سے کشمیر پر بیرونی کردار کو مسترد کرتا آ رہا ہے اور جب صدر ٹرمپ نے جولائی میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں ثالثی کا ذکر کیا تو بھارت نے اس خیال کو فوری طور پر مسترد کر دیا۔ مودی حکومت کہتی ہے کہ اس کے اقدامات سے کشمیر میں معاشی ترقی میں تیزی آئے گی۔ حکومت کشمیر میں عائد پابندیوں کو امن اور پاکستانی مداخلت روکنے کے لیے عارضی اقدامات قرار دیتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ