ہم کب مصنوعی ذہانت میں سرمایہ کاری کریں گے؟

حضور والا مغرب تو اپنی تحقیق کا دائرہ وسیع کر رہا ہے، لیکن مسلمانوں میں اس کا کوئی نام و نشان نہیں مل رہا۔

برلن، جرمنی کے ریلوے سٹیشن پر نصب مسافروں کی مدد کے لیے ایک روبوٹ (اے ایف پی)

انسان کی ترقی کا سفر آگ کی ایجاد سے شروع ہوتا ہے اور مرحلہ وار کئی منازل طے کر کے سائنس کی نئی نئی جہتوں تک جا پہنچا ہے۔ اس سے انسانی زندگی میں آسانی پیدا ہوئی ہے اور معیار زندگی بتدریج بہتر ہو رہا ہے۔

کبھی  صعنتی دور آیا تو کبھی زراعت میں ترقی ہوئی ہے اور ساتھ ساتھ صحت کے شعبے میں بھی۔ آج کا دور میں جو انسان کی تحقیق کا مرکز ہے وہ ہے آڑٹیفشل انٹیلیجنس یا اے آئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کو ہر شعبہ میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔ ایسے تو یہ مضمون بہت وسیع ہے لیکن  اس کی ایک شاخ  کا خاکہ پیش کرتا ہوں جس کا نام مشین لرننگ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس میں ہوتا کیا ہے کہ آپ الگوردم کو ڈیٹا دیتے ہیں جو ماضی سے اکٹھا کیا ہوتا ہے اور اس کی مدد سے وہ مستقبل کی پیش گوئی کرتا ہے۔ اس کا عام سی مثال موسمی پیشگوئی ہے۔ ایک انسان کے لیے یہ بتانا بہت آسان ہے کہ اس تصویر میں کیا کیا موجود ہے، کتنے انسان ہیں، کتنے درخت ہیں یا کچھ اور لیکن ایک مشین کے لیے یہ بتانا انتہائی مشکل ہے کیوں کہ وہ تصویر کو نمبروں میں سمجھتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی سائنس دانوں نے ڈیپ لرنگ الگوردم کے ذریعے حل کر دیا ہے۔ اب مشین آپ کو بتا سکتی ہے کہ تصویر میں کون کون ہے اور کیا ہے۔ حال میں ہی گوگل نے ان دونوں الگوردمز کی مدد سے تحقیق کی ہے کہ وہ اپ کی آنکھ کو سکین کر کے آپ کی عمر، جنس، وزن کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ آپ ذیابیطس کے مریض ہیں یا نہیں۔ اور تو اور، یہ تک بتا سکتے ہیں کہ آپ کو ہارٹ اٹیک ہونے کا کتنے فیصد امکان ہے۔ 

حضور والا مغرب تو اپنی تحقیق کا دائرہ وسیع کر رہا ہے، لیکن مسلم ملکوں میں اس کا کوئی نام و نشان نہیں مل رہا۔ ہمارے وزیر اعظم نے کچھ ماہ قبل کہا تھا کہ ہمیں اے آئی میں کام کرنا چاہیے۔ اس فیلڈ سے ساری جابز ہی مغربی ممالک میں ہیں۔ پاکستان کو بھی اس میں سرمایہ کاری کرنا چاہیے اور خلیجی ریاستوں کو بھی قائل کرنا چاہیے کہ وہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس