سندھ کی واحد مفت ایمبولینس سروس کیوں بند ہوگئی؟

کورنگی میں امن فاؤنڈیشن ہیڈ آفس کے باہر ایمبولینسز کے ڈرائیوروں اور عملے نے احتجاج کے دوران دعویٰ کیا کہ ان کی تنخواہیں پچھلے تین ماہ سے فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے ادا نہیں کیا گئیں۔

سندھ ریسکیو اینڈ میڈیکل سروس کے پاس بنیادی لائف سپورٹ ایمبولینسز ہیں جو ایمرجنسی ریسپانس، ایڈوانس لائف سپورٹ، ای سی جی مشینوں، اے ای ڈی مشینوں اور کارڈیک مانیٹرس سے لیس ہیں۔(سوشل میڈیا) 

سندھ حکومت کی جانب سے فنڈز کے اجرا میں تاخیر کے باعث آج سندھ ریسکیو اینڈ میڈیکل سروسز (ایس آر ایم ایس) کی ایمبولینسز نے کراچی میں آپریشن معطل کر دیا۔ کورنگی میں امن فاؤنڈیشن ہیڈ آفس کے باہر ایمبولینسز کے ڈرائیوروں اور عملے نے احتجاج کے طور پر اپنی خدمات معطل کر دیں اور مظاہرہ کیا۔ انہوں نے ہیڈ آفس کے باہر ایمبولینسیں کھڑی کیں اور تنخواہوں کے مطالبے کے نعرے لگائے۔

عالمی ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق شہری علاقوں میں ایک لاکھ افراد کے لیے کم از کم ایک ایمبولینس ہونی چاہیے جبکہ پہاڑی یا قبائلی علاقوں میں 70 ہزار افراد کے لیے ایک ایمبولینس ہونا لازمی ہے۔ بدقسمتی سے کراچی میں 3 لاکھ افراد کے لیے صرف ایک ایمبولینس دستیاب ہے جن میں سے ذیادہ تر صرف پک اینڈ ڈراپ سروس فراہم کرتی ہیں اور ان میں ای یم ایس یعنی فوری طبی امداد کی سہولیات موجود نہیں ہوتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان ہی مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے گذشتہ برس اکتوبر میں سندھ حکومت نے کراچی میں مفت سرکاری ایمبولیس سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت فلاحی ادارے امن فاؤنڈیشن کے ساتھ دو سو ایمبولینسز چلانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس سروس کا آغاز رواں سال جون میں کیا گیا تھا جس کے تحت اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کو فوری طبی امداد فراہم کی جاچکی ہے۔

سندھ ریسکیو اینڈ میڈیکل سروس کے پاس بنیادی لائف سپورٹ ایمبولینسز ہیں جو ایمرجنسی ریسپانس، ایڈوانس لائف سپورٹ، ای سی جی مشینوں، اے ای ڈی مشینوں اور کارڈیک مانیٹرس سے لیس ہیں۔ ان ایمبولینسوں کو جدید ترین طبی آلات، زندگی بچانے والی دوائیں اور تربیت یافتہ پیرامیڈکس کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر تصدیق شدہ میڈیکل ترجیحی ڈسپیچ سسٹم (ایم پی ڈی ایس) کے تحت چلایا جاتا ہے۔ اس طرز کی 60 ایمبولینسز کراچی شہر میں موجود ہیں۔

کورنگی میں امن فاؤنڈیشن ہیڈ آفس کے باہر ایمبولینسز کے ڈرائیوروں اور عملے نے احتجاج کے دوران دعویٰ کیا کہ ان کی تنخواہیں پچھلے تین ماہ سے فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے ادا نہیں کیا گئیں۔ اگرچہ یہ ایمبولینس سروس مفت ہے لیکن عملے لئے مفت میں کام کرنا ممکن نہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ایمبولینس سروس تب تک بحال نہیں کی جائے گی جب تک فنڈز جاری نہیں کئے جائیں گے۔

دریں اثنا، سندھ ریسکیو اینڈ میڈیکل سروس کے عملے کے احتجاج کے باعث حکومتِ سندھ نے ایمبولینس نیٹ ورک کو آسانی سے چلانے کے لئے پہلے سے مختص کئے ہوئے اکتالیس کروڑ روپے جاری کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

امن ہیلتھ کیئر سروسز کے سی ای او شازینہ مسعود کا کہنا تھا کہ ’فنڈز کی عدم فراہمی نے ہمارے لئے مالی اور آپریشنل مسائل پیدا کردیئے ہیں جن میں ایمبولینس کے عملے کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی بھی شامل ہے۔ ہم حکومت سندھ سے فنڈز فوری طور پر جاری کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔‘

سندھ میں سرکاری ایمبولینسز کی صورتِ حال انتہائی ابتر ہے۔ عام طور پرسڑکوں پہ ایدھی اور چھیپا کی نجی ایمبولینسز ہی نظر آتی ہیں۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق سندھ بھر میں سرکاری ایمبولنسز کی تعداد 645 ہے، سندھ حکومت کے مطابق ان میں سے 580 ایمبولنسز فعال ہیں۔ جن میں سے دو کروڑ سے ذائد آبادی والے شہرکراچی میں صرف 11 ایمبولینسز موجود ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان