انڈین نیول افسر ونے نروال کی بیوہ ہیمانشی کی جگہ خود کو کھڑا کرکے دیکھیں، وہ 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں وہیں تھیں جب ان کے سامنے ان کے شوہر کو مارا گیا۔
اس شدید صدمے کے بعد اب سوچیں کہ انڈیا میں جس منظم انداز سے مودی حکومت پچھلی ایک دہائی سے پاکستان، اسلام اور مسلمان مخالف جذبات ابھار رہی ہے، ریاست کا وہ دباؤ اس وقت کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ بھی سوچیں کہ عام انڈینز کے ذہنوں میں کشمیر کے خلاف جو زہر بھرا گیا ہے، اس کا دباؤ الگ۔ اب سوچیں کہ وہ انڈین میڈیا جو ایٹمی حملے سے کم بات نہیں کر رہا، اس کا دباؤ؟
ایسے تنے ہوئے ماحول میں، جنگی ہیجان زدہ انڈین میڈیا کے کیمروں کے سامنے انڈین فوجی کی بیوہ ہیمانشی کہتی ہیں کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ لوگ اس واقعہ کا بدلہ کشمیریوں یا مسلمانوں سے لیں، ہم صرف امن چاہتے ہیں۔‘
جب جنگی للکاروں سے کان پڑی آواز نہ سنائی دے، ایسے میں امن کی اپیل کرنے کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے۔ دل گردہ چاہیے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ مذہبی تعصب کے مارے مودی کے بھگت اب ہیمانشی کو سکون سے جینے نہیں دیں گے۔
ایسا نہیں کہ ہیمانشی اکیلی ہے، ڈیڑھ ارب کی آبادی والے ملک میں امن کے امیدوار بھی کروڑوں میں ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پاکستان میں بھی ’آیا جے غوری‘ کہنے والے ضرور ہیں، لیکن جنگ کے حامی سب نہیں۔
پہلگام دہشت گردی نے انڈیا اور پاکستان کو ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سرحدیں بند، سفارت کاری بند، اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی۔ توپوں کا رخ ایک دوسرے کی جانب ہے اور فیصلہ ساز چھوٹے پیمانے کی جنگ کے حالات ناپ تول رہے ہیں، بڑے پیمانے کی جنگ سے کیسے بچا جائے، یہ سوچ رہے ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے ایٹمی پروگرام یہ گارنٹی دیتے ہیں کہ تباہی ایک کی ہوئی تو محفوظ دوسرا ملک بھی نہیں رہے گا۔ اس لیے دوطرفہ ہزار دھمکیوں اور طاقتوروں کی شدید خواہش کے باوجود، جنگ اس نفرت اور گھٹن کا حل نہیں جو دونوں ملکوں میں پنپ رہی ہے۔
ایسی ہی صورتِ حال یورپ نے بھی دیکھی تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں یورپ مسلسل جنگوں کا شکار تھا۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں کروڑوں انسان مارے گئے۔ صرف فرانس اور جرمنی نے 70 سال میں تین بڑی جنگیں لڑیں۔ شہر کھنڈرات میں بدل گئے تھے، نسلیں اجڑ گئیں۔
1945 کے بعد، جنگوں سے تھکی ہاری یورپی قوموں نے دیکھا کہ بڑے شہروں کے کھنڈر علاقوں میں اب صرف بیوہ عورتیں رہتی ہیں جو یتیم بچوں کا ہاتھ تھامے راشن کی لائنوں میں لگی ہوتی ہیں۔ تب یورپ نے فیصلہ کیا کہ وہ نفرت و ہیجان کے اس سلسلے کو توڑے گا۔ فرانس اور جرمنی نے مصالحت پنائی۔ ایک فوج، ایک کرنسی، ایک پارلیمنٹ بنائی، ایک دوسرے کو معاشی ضرورتوں سے جوڑ لیا۔
لیکن ایک دوسرے کے خون کے پیاسے لوگوں نے یہ سب کیسے کیا؟ ان ممالک کی قیادت کے فیصلوں کی اہمیت بہرحال مسلم ہے، لیکن ان ممالک کے لوگوں نے بھی جنگ کی حمایت ختم کی۔ یورپ نے ایک صدی طویل جنگ سے سیکھا کہ انتقام روزگار نہیں دیتا، بمباری سے نئی فصل نہیں اگائی جا سکتی، جنگیں خود ایک مسئلہ ہیں، مسئلے کا حل نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن موجودہ حالات میں جنوبی ایشیا کے ملکوں کو یورپی یونین جیسی امن و ترقی کا مشورہ دینا دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ دیگر ممالک سے انڈیا کے جھگڑے اور قسم کے ہیں، لیکن ہم سے جھگڑا اب سرحدی یا معاشی نہیں رہا۔
پاکستان انڈیا کے درمیان حالیہ نفرت کے اس تناور درخت کا بیج مودی نے بویا ہے۔ وہ معاملہ جو سراسر زمینی کنٹرول، وسائل پہ قبضے اور علاقائی طاقت کے حصول کا تھا، اسے بدقسمتی سے مذہب کا رنگ دینے میں بی جے پی کی سرکار نے نہایت قبیح کردار ادا کیا ہے۔
انڈیا کے جنگی جنون میں حالیہ تڑکا غزہ کی صورتِ حال نے لگایا ہے۔ ہمارا پڑوسی آئیڈیا نقل کرنے میں طاق ہے، سو طاقت کا آئیڈیا لگتا ہے اس بار اسرائیل سے کاپی پیسٹ کیا ہے۔ شاید ’گریٹر اسرائیل‘ کی طرح پڑوسیوں کو بھی ’گریٹر انڈیا‘ کا شوق سوجھا ہے۔ اسی لیے کشمیر میں مسلمانوں کے گھر گرانے اور جلانے کے واقعات رچائے گئے ہیں۔
لیکن یہ یاد رہے جب جب مودی اور اس کے چیلے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت کا بازار گرم کرتے ہیں، اسی انڈیا سے امن کے متلاشیوں کی آوازیں بھی ابھرتی ہیں۔ جیسے جنگ کے متمنی لاکھوں جنونیوں کے سامنے ایک ہیمانشی کھڑی ہو گئی، ویسے ہی امن چاہنے والے اور لوگوں کو بھی مل کر ایک بیانیہ بنانا چاہیے۔ اگر یورپ اپنی راکھ سے اٹھ سکتا ہے، تو جنوبی ایشیا بھی نفرت کی سیاست سے نکل سکتا ہے۔
امن کو موقع ملنا چاہیے، ورنہ تو اُدھر والے جاسوس کبوتر پکڑتے رہیں گے اور اِدھر والے میمز بناتے رہیں گے۔ جنگ کی باتوں کو مذاق میں اُڑانا اپنی جگہ، لیکن جنگ ہرگز چھچھورپن نہیں۔ امن کی خواہش کمزوری نہیں، امن کی دعا وہ مائیں کرتی ہیں جن کے جوان بیٹوں کو جنگوں میں جھونکنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔