گندم کا بحران: اسباب، وجوہات اور مستقبل کے خدشات

صوبہ پنجاب میں گندم کاحالیہ بحران گذشتہ سال کے دوران شروع ہوا، جو اب ملک گیر شکل اختیار کر چکا ہے۔

کسان 15 اپریل 2025 کو لاہور کے مضافات میں ایک کھیت میں گندم کی کٹائی کر رہے ہیں (عارف علی / اے ایف پی)

صوبہ پنجاب میں گندم کاحالیہ بحران گذشتہ سال کے دوران شروع ہوا، جو اب ملک گیر شکل اختیار کر چکا ہے۔ حالانکہ 2024 میں ملک کے کسانوں نے 31.4 ملین میٹرک ٹن بمپر کراپ پیدا کی، جس میں سب سے بڑا حصہ پنجاب بلکہ سرائیکی وسیب کے کسانوں کا تھا۔

اس کے برعکس گذشتہ سال کے دوران ن لیگ کی پنجاب حکومت نے گندم کی امدادی قیمت تو 3900 روپے فی من مقرر کی، لیکن صوبائی حکومت خریداری سے منحرف ہو گئی۔ جواز گھڑا گیا کہ پنجاب حکومت نے 2024 کے اوائل میں یوکرین سے سستی گندم درآمد کر لی تھی اس لیے نئی گندم ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں۔

صوبائی حکومت کی عدم خریداری کے نتیجے میں 2024 میں گندم کی بمپر کراپ کی شدید ناقدری ہوئی اور مہنگےبیج، کھاد، ڈیزل کے استعمال سے اگائی گئی گندم 2600 سے 2700 روپے فی من فروخت ہوتی رہی، جب کہ کافی سارے کسانوں کو گذشتہ سال کی گندم کے پیسے ابھی تک نہیں ملے۔ اس کے برعکس وفاقی حکومت نے پاسکو کے ذریعے 2024 میں 3900 روپے فی من کے حساب سے 18 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کی۔

اہم سوال یہ ہے کہ پاسکو نے پچھلے سال کون سے کسانوں سے یہ گندم خریدی؟

البتہ گذشتہ سال کے دوران سندھ اور خیبرپختونخوا حکومتوں نے گندم کی خریداری جاری رکھی، جس کے نتیجے میں سرائیکی وسیب کے اضلاع راجن پور، ڈیرہ غازیخان، مظفرگڑھ، لیہ، بکھر، حیم یارخان، بہاولپور اور لودھراں کے کسانوں کو کم نقصان ہوا کیونکہ انہیں (بالواسطہ طور پر) اپنی گندم سندھ اور خیبرپختونخوا میں فروخت کرنے کا موقع مل گیا تھا۔

اس کے برعکس موجودہ سال میں گندم کی فصل تیار ہوئی تو پنجاب حکومت نے گندم کی امدادی قیمت ہی مقرر نہیں کی۔ گندم کی تقریباً آدھی فصل کٹ چکنے کے بعد پنجاب حکومت کی طرف سے گندم کی علامتی قیمت 2700 روپے فی من کا اعلان کیا گیا، مگر حسب سابق صوبائی حکومت خریداری سے منحرف ہو گئی۔ سندھ حکومت نے بھی 2025 میں ابھی تک گندم کی خریداری نہیں کی۔

2023 اور 2024 میں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے کسانوں کے ساتھ ایک سے زائد مرتبہ وعدہ کیا تھا کہ وہ گندم کی بمپر کراپ اگائیں حکومت ان سے گندم کا ایک ایک دانہ خریدے گی۔ اب حکومت کسانوں سے گندم کا ایک بھی دانہ خریدنے کی لیے تیار نہیں ہے۔ بلکہ گندم کی خریداری بند کر کے انہوں نے کسانوں کو شدید مایوس کیا ہے۔ نتیجتاً  ملک بھر کے کسان مالی طور پر برباد ہو گئے ہیں۔

2025 میں ملک کے کسانوں نے گندم کی فصل کے لیے ڈی اے پی کھاد کی بوری 12000 سے 15000روپے (ایک بوری فی ایکڑ) جبکہ یوریا کھاد 4500 روپے فی بوری (2بوریاں فی ایکڑ) خریدی۔ اس کے علاوہ مہنگا بیج اور مہنگا ڈیزل بھی استعمال کیا۔

مارکیٹ میں اس وقت گندم کی قیمت 1800 سے 2200 روپے فی من ہے جوکسان کے لیے بدترین خسارے کا باعث ہے۔ اس پر آڑھتی حضرات 2200 روپے فی من لے کر بھی کسان کو نقد ادائیگی کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

البتہ رحیم یارخان اور پشاور کے کچھ سٹاکیے ہیں جو 1600روپے فی من کے حساب سے موقع پر جبکہ 1800روپے فی من کے حساب سے ایک ہفتے کے اندر کسانوں کو گندم کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ نا جانے یہ سٹاکیے کون سی سلیمانی ٹوپی پہن کر پھرتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے افسران کو نظر ہی نہیں آتے۔

محدود اندازے کے مطابق کسانوں کو امسال گندم کی فصل میں 35 سے 40 ہزار روپے فی ایکڑ خسارے کا سامنا ہے جبکہ 2025 میں ملک بھر کے کسانوں کو ہونے والے مجموعی خسارے کا حجم 1100 ارب روپے سے زائد بنتا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اس خسارے کا سب سے بڑا حصہ سرائیکی وسیب کے کسانوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ پنجاب میں تو جگہ جگہ بننے والی ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کی وجہ سے زرعی زمین سکڑ کے رہ گئی ہے اور جو بچی ہے وہ بڑے بڑے ڈیری فارمز کے لیے چارہ کاشت کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔ لہذا تخمینہ ہے کہ 2025 میں گندم کی فصل میں ہونے والے 1100 ارب روپے کے مجموعی خسارے میں سرائیکی وسیب کے کسانوں کا حصہ لگ بھگ 600 ارب روپے ہو گا۔

ملاحظہ فرمائیں کہ 2024 میں پنجاب حکومت کے گندم کی خریداری سے انحراف کے نتیجے میں صوبے کے کسانوں نے 2025 کے لیے گندم کی کاشت (گزشتہ سال کے مقابلے میں) 25 فیصد کم کی جو ملک بھر میں گندم کی کاشت میں 11 فیصد کمی بنتی ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ گذشتہ سال کے دوران تو پنجاب حکومت نے یوکرین سے سستی گندم درآمد کرنے کا جواز پیش کیا تھا، مگر اس سال میں گندم کی عدم خریداری کا کیاجواز بنتا ہے؟

سرائیکی وسیب کے اضلاع راجن پور، ڈیرہ غازی خان، مظفرگڑھ، لیہ، بکھر، رحیم یارخان، بہاولپور، لودھراں، وہاڑی اور خانیوال میں زباں زدِعام ہے کہ کیونکہ سرائیکی وسیب کے لوگوں نے 2024 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالے تھے اس لیے مسلم لیگ ن کی حکومت گندم کی امدادی قیمت پر خریداری بند کر کے سرائیکی عوام سے انتقام لے رہی ہے۔

بہرحال سرائیکی عوام سے بھی سوال تو بنتا ہے کہ پی ٹی آئی نے 2018 میں سرائیکیوں کے لیے متعصبانہ سوچ رکھنے والے عثمان بزدار کو مسلط کر کے کون سا کارنامہ انجام دیا تھا کہ ابھی تک پی ٹی آئی کی محبت میں مرے جا رہے ہیں۔ حالانکہ پی ٹی آئی کے اس وقت کے سربراہ نے 2018 میں 100 دن میں صوبہ بنانے کے معاہدے پر دستخط کر کے سرائیکی عوام سے کھلم کھلا جھوٹ بولا تھا۔ کیونکہ پی ٹی آئی نے 2018 کے عام انتخابات میں ووٹ لے کر پونے چار سال تک ملک پر بلاشرکت غیر حکومت کی مگر اس دوران ایک مرتبہ بھی سرائیکی صوبہ بنانے کی کوشش تک نہیں کی گئی۔

تاہم اگر پنجاب حکومت کا امدادی قیمت پر گندم کی خریداری کا فیصلہ سیاسی نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے آئی ایم ایف کے دباؤ پر گندم کی خریداری بند کی ہے؟

بلاشبہ آئی ایم ایف کا سرکاری سطح پر گندم کی خریداری بند کرنے کا مطالبہ کافی پرانا ہے اور ماضی کی حکومتیں گندم کی خریداری نہ کرنے کا آئی ایم ایف سے وعدہ بھی کرتی رہیں ہیں۔

آئی ایم ایف سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا مخالف کیوں؟

درحقیقت آئی ایم ایف کا چارٹر کہتا ہے کہ جو ملک امیروں کوسبسڈی دے اسے قرضہ پروگرام نہیں مل سکتا۔ جبکہ آئی ایم ایف پاکستان میں گندم کی امدادی قیمت کے تحت سرکاری سطح پر خریداری کو سبسڈی قرار دیتا ہے اور اس کے مطابق گندم کی امدادی قیمت کے 70 فیصد بینیفیشری امیر کسان (بڑے زمیندار) ہیں، جن کا سبسڈی پر کوئی حق نہیں بنتا۔

آئیے اس ضمن میں کچھ ضروری سوالوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

کیا گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کو سبسڈی قرار دیا جا سکتا ہے؟

وفاقی وزارت خزانہ کے ذمہ داران نے 2024 میں توسیعی قرضہ پروگرام کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور بعد میں ہونے والے کئی جائزہ مذاکرات کے دوران گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کے حوالے سے نجانے کیا مؤقف پیش کیا، لیکن حقیقت کچھ یوں ہے کہ گندم کی امدادی قیمت کا ہر سال کے شروع میں صوبائی حکومتیں اپنے صوبے میں گندم کی فصل پر آنے والی لاگت اور آٹے کے صارفین کی قوتِ خرید کو مدنظر رکھ کر ایک اعلان کر کے گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کرتی ہے۔ اس کا مقصد کسانوں کو بھی ان کی محنت کا پھل ملنا اور صارفین کو مناسب نرخ پر آٹا دستیاب ہونا ہوتا ہے۔

لہذا ہر سال امدادی قیمت کا اعلان کرنے کے بعد پنجاب حکومت، دی بینک آف پنجاب کی رعائتی فنانسنگ، صوبہ سندھ کی حکومت سندھ بینک اور خیبرپختونخوا کی حکومت خیبر بینک کی رعائتی فنانسنگ سے ہدف کے مطابق گندم کی خریداری کرتی ہے، جب کہ ہر صوبائی حکومت (سالانہ ہدف کے مطابق) گندم کی خریداری مکمل کر کے فلور ملز کا کوٹہ مقرر کر کے انہیں لاگت کے مقابلے میں تقریباً 100روپے فی من اضافی قیمت پر گندم فراہم کرتی ہے اور اس طرح دسمبر تک بینکوں کو ان کی رقم مع رعائتی شرح سود (5 فیصد) واپس مل جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب صوبائی حکومتیں بھی گندم کی خریداری پر ہرسال منافع کما لیتی ہیں۔

دراصل سبسڈی تو وہ ہے جو حکومت کی جانب سے عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے کسی کو بطور زر تلافی ادا کی جاۓ۔ اس کے برعکس گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری خریداری تو بینک فنانسنگ کے ذریعے ہوتی ہے اور بینکوں کو ان کا پیسہ مع سود واپس مل جاتا ہے جبکہ صوبائی حکومتیں بھی اس سے منافع کماتی ہیں۔ لہذا یہ سبسڈی کیوں کر ہوئی؟

کیا پاکستان دنیا کا اکلوتا ملک ہے جو کسانوں سے ان کی فصل امدادی قیمت پر خریدتا ہے؟

حالانکہ انڈیا اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے کئی زرعی ممالک میں مارکیٹ سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) سسٹم موجود ہے۔

ماضی قریب میں انڈیا کی چھ ریاستوں کے کسانوں کی ایک بڑی تعداد نے ایم ایس پی سسٹم کی بحالی کے لیے بھارتی دارالحکومت دہلی میں داخل ہونے والے راستوں کو بند کر کے کئی ماہ تک طویل دھرنا دیا تھا اور مودی سرکار ایم ایس پی سسٹم بحال کرنے کے لیے مجبور ہو گئی تھی۔

گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کی بندش کے بالخصوص زراعت اور بالعموم معیشت پر کیا اثرات 

کیا گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کی بندش پاکستانی معیشت کے خلاف سازش ہے؟

جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال یعنی 2024 کے دوران صوبہ پنجاب میں امدادی قیمت پر گندم کی سرکاری سطح پر خریداری کی بندش کے نتیجے میں 2025 کے لیے صوبے میں گندم کی کاشت میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی۔ نتیجتا ً وفاقی حکومت کو رواں سال کے لیے گندم کا پیداواری ہدف 31.4 میٹرک ملین ٹن سے کم کر کے 27.9 ملین میٹرک ٹن پر لانا پڑا ہے۔

اس کے برعکس رواں سال  دیگر صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھی امدادی قیمت پر گندم کی عدم خریداری کے نتائج کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ لہذا یہ کیونکر ممکن ہے کہ 2025 میں حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں دیوالیہ ہونے والے کسان 2026 کے لیے مطلوبہ مقدار میں گندم کی فصل کاشت کر پائیں گے۔

کیا گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کی بندش کا کوئی فائدہ بھی ہے؟

اس میں شبہ نہیں کہ گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کی بندش کے نتیجے میں ایک سال کے دوران آٹے کی قیمت جو 130روپے سے 150روپے فی کلوگرام تھی کم ہو کر 70 سے 100 روپے فی کلوگرام ہو گئی ہے، جبکہ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا صارفی اعشاریہ بھی نیچے آگیا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کی وفاقی اور صوبائی (پنجاب) حکومت نہ صرف مہنگائی میں کمی کا کریڈٹ لے رہی ہیں بلکہ مطمئن ہیں کہ اس کا شہری ووٹر آٹے کی قیمت میں کمی کی وجہ سے حکومت سے خوش ہے۔

کیا آٹے کی موجودہ قیمت برقرار رہے گی؟

مارکیٹ اکانومی میں کسی بھی چیز کی قیمت کا انحصار طلب ورسد کے توازن پر ہوتا ہے جبکہ اگر کسی ملک کا کسان دیوالیہ ہو گا تو گندم کی سپلائی کیوں کر برقرار رہ پاۓ گی۔

2008 میں بھی ملک بھرمیں آٹے کی شدید قلت تھی اور قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوئی تھیں۔ اس وقت کی حکومت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے سستے آٹے کے حصول کے لیے عوام کی لمبی قطاریں ہوتی تھیں۔ جبکہ 2008 میں سستے آٹے کے حصول کے لیے آنے والے غریب عوام پر پولیس کے لاٹھی چارج اور بھگدڑ سے اموات کی خبریں عام تھیں۔

اس کے برعکس 2008 میں جمہوریت کی بحالی پر پی پی پی کی نئی حکومت نے آٹے کی قلت پر قابو پانے کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں 50 فیصد اضافے کا اعلان کر کے 625 روپے سے بڑھا کر 950 روپے فی من مقرر کی تھی۔ نتیجتاً نہ صرف یہ کہ دو سال میں آٹے کا بحران ختم ہو گیا بلکہ 2010-11 میں پاکستان گندم برآمد کرنے والا ملک بن گیا تھا۔

یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کی بندش سے پاکستان میں دوبارہ وہی حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں اور خدانخواستہ مستقبل میں حکومت آٹے کی قلت پر قابو پانے کے لیے ایک مرتبہ پھر گندم کی درآمد پر قیمتی زرمبادلہ خرچ کر رہی ہو گی؟
اگر ایسا ہوا تو کیا پاکستان قرضوں کے شیطانی چکر سے کبھی نہیں نکل پاۓ گا؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ