برفانی تودے کاٹنا غیر قانونی قرار: کمرشل استعمال کیسے ہوتا ہے؟

پشاور ہائی کورٹ کے وکلا طارق افغان اور سجید آفریدی نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ چترال، سوات، دیر، شانگلہ اور کاغان/ ناران میں برفانی تودوں کی کٹائی سے ماحولیاتی نظام کو نقصان ہو رہا ہے۔

12 جولائی 2023 کو لی گئی یہ تصویر، پاکستان کے گلگت بلتستان کے قراقرم سلسلے میں واقع دنیا کے دوسرے سب سے اونچے پہاڑ اسکولے اور کے ٹو کے درمیان بلتورو گلیشیئر کے پار ایک راستہ بناتے ہوئے پاکستانی مردوں کو دکھاتی ہے (جو اسٹینسن / اے ایف پی)

پشاور ہائی کورٹ نے ماحولیاتی مسائل پر کام کرنے والے وکلا کی درخواست پر چترال سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں برفانی تودے کاٹنے اور اس کو فروخت کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل طارق افغان اور سجید آفریدی نے عدالت میں درخواست جمع کروا کے استدعا کی تھی کہ چترال، سوات، دیر، شانگلہ اور کاغان/ ناران میں برفانی تودوں کی کٹائی سے ماحولیاتی نظام کو نقصان ہو رہا ہے۔

گلیشئرز اور ایوالانچ میں فرق اور اس کا کمرشل استعمال

برفانی تودوں کے کمرشل استعمال پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ گلیشیئر اور ایوالانچ، جنہیں اردو میں عام طور پر برفانی تودا ہی کہا جاتا ہے، میں کیا فرق ہے۔

حمید احمد چترال میں گلیشئرز کے حوالے سے یونائیٹڈ نیشن ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے منصوبے GLOF کے سابق مینیجر اور ابھی ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے کوآرڈینیٹر ہیں اور گلیشیئرز پر مختلف تحقیقی مقالوں کا حصہ رہے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ میں نے پڑھا ہے، لیکن اس میں کچھ چیزیں تکنیکی ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔

برفانی تودا کاٹنے اور اس کے کمرشل استعمال کی بات جب آتی ہے، تو اس میں گلیشیئرز نہیں بلکہ ایوالانچ کا استعمال ہوتا ہے، جس کو برف کے استعمال کے لیے کاٹ کر فروخت کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا، ’گلیشیئرز بہت زیادہ بلندی پر ہوتے ہیں اور وہاں جانا اور پھر اس کو کاٹنا بہت مشکل عمل ہے، جبکہ گلیشیئرز کسی عام آلے سے کاٹنا بھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ وہ عام برف سے 100 گنا سخت ہوتا ہے، جبکہ وزن بھی عام برف کی ایک کیوبک میٹر کا وزن 300 کلوگرام، جبکہ گلیشئر کا ایک کیوبک میٹر وزن ایک ہزار کلوگرام ہوتا ہے۔‘

اسی طرح حمید نے بتایا کہ ’گلیشیئرز کسی ایک موسم یا سال میں نہیں بنتیں، بلکہ اس کے بنانے میں دہائیاں لگتی ہیں اور تب جا کر گلیشیئر بنتا ہے۔

جبکہ عدالتی فیصلے میں جس بات کا ذکر ہوا ہے، وہ اصل میں ایوالانچ ہے، جبکہ ایوالانچ اور گلیشیئر کو عام زبان میں برفانی تودا کہا جاتا ہے، گو کہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔

سوئٹزرلینڈ کے انسٹیٹیوٹ فار سنو اینڈ ایوالانچ ریسرچ کے مطابق ایوالانچ کی تین بنیادی قسمیں ہیں، جن میں ایک ’سنو ایوالانچ‘ کہلاتا ہے، جب سنو (آئس نہیں) کی کمزور سلیب کے اوپر برف کی مضبوط تہہ بن جائے۔

دوسری قسم کو ’لوز سنو ایوالانچ‘ کہا جاتا ہے، جس کو عام طور پر پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں برف باری کے موسم میں دیکھا جاتا ہے اور یہ پہاڑیوں کی نچلی سطح پر ہوتا ہے، جبکہ تیسری قسم کو ’گلائیڈنگ ایوالانچ‘ کہا جاتا ہے، جو کہ گھاس یا پتھر کے اوپر برف پڑنے سے بن جاتا ہے۔

سائمن فریزر یونیورسٹی کے مطابق گلیشیئرز گرنے سے بھی ایوالانچ بن سکتا ہے، لیکن حمید احمد کے مطابق چترال، کاغان، ناران یا سوات میں گلیشیئر کا ایوالانچ نہیں بنتا بلکہ برف باری کے دوران پہاڑوں میں برف پڑنے سے ایوالانچ بنتا ہے۔

ایوالانچ کے کاٹنے کے حوالے سے حمید نے بتایا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ایوالانچ کے کاٹنے سے ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ ایوالانچ آہستہ پگھل کر پودوں اور زرعی زمینوں کے لیے پانی کا ایک اہم ذخیرہ ہے۔

انہوں نے بتایا، ’چترال میں 2017 سے پہلے یہ پریکٹس بہت عام تھی، لیکن اب بجلی آنے کے بعد گھروں میں فریج کا استعمال کیا جاتا ہے، تو ایوالانچ کاٹ کر برف حاصل کرنا اتنا زیادہ نہیں رہا۔‘

ایوالانچ کے بھی پھر مختلف اقسام ہیں، جن میں ’آئس ایوالانچ‘ اور ’سنو ایوالانچ‘ شامل ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کیا ہے؟

اب آتے ہیں کہ پشاور ہائی کورٹ نے اس کیس کی سماعت کے دوران کیا کہا اور اس عدالتی فیصلے میں کیا لکھا گیا ہے۔

عدالت میں دائر درخواست کے مطابق یہ برفانی تودوں کے پگھلنے سے مختلف پودوں، درختوں، جانوروں اور زرعی زمینوں کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہے، جبکہ اس کو کاٹنے سے سیلاب کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے۔

تاہم درخواست گزار کے مطابق انہیں برفانی تودوں کو کمرشل مقاصد کے لیے بلاک کی شکل میں کاٹ کر فروخت کیا جا رہا ہے، جس سے اس اہم ذخیرے کو خطرہ لاحق ہے اور یہ خیبر پختونخوا ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔

درخواست کے مطابق، ’پاکستان اقوام متحدہ کے فریم ورک برائے موسمیاتی تبدیلی سمیت پیرس کے بائیو ڈائیور سٹی فریم ورک پر دستخط کر چکا ہے اور اسی کے تحت گلیشیئرز کا کاٹنا غیر قانونی عمل ہے۔‘

اسی طرح اقوام متحدہ کے سسٹینیبل ڈیولپمنٹ گول 13 بھی گلیشئرز کے تحفظ کے حوالے سے ہے اور پاکستان کو اس غیر قانونی عمل کو روکنا چاہیے۔

درخواست گزار طارق افغان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس حوالے سے ہم نے گذشتہ سال خیبر پختونخوا محکمہ ماحولیات میں بھی درخواست دی تھی، لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اسی وجہ سے عدالت میں درخواست جمع کرائی۔

عدالت میں 6 مئی کو درخواست پر دو رکنی بینچ نے سماعت کی اور متعلقہ اضلاع کو گلیشئرز کی کٹائی روکنے کے احکامات جاری کیے۔

سماعت کے دوران درخواست گزاروں میں سے سجید آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ خیبرپختونخوا میں گلیشئر کی غیر قانونی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے، جس پر جسٹس اعجاز انور نے پوچھا کہ گلیشئر کی کٹائی کیوں کی جاتی ہے۔

اسی پر سجید افریدی نے بتایا کہ بازاروں میں فروخت کے لیے گلیشئر کی برف بھیجی جاتی ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ یہ تو پرانے زمانے میں ہوتا تھا۔

درخواست گزار طارق افغان نے عدالت کو بتایا کہ یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور گرمیوں میں یہ برف بیچی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت میں سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید سکندر حیات شاہ نے عدالت کو بتایا کہ اس سلسلے میں محکمہ ماحولیات نے رپورٹ جمع کی ہے کہ گلیشئر سے برف لے جانا ممکن نہیں ہے۔

سکندر شاہ نے عدالت کو بتایا، ’گلیشیئر تو ہزاروں فٹ بلندی پر ہوتے ہیں اور اس سے برف لے جانا ممکن نہیں ہے۔‘

اسی پر درخواست گزار وکیل سجید افریدی نے بتایا کہ گلیشیئر کی نیچے سے کٹائی ہوتی ہے اور جب درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو پھر گلیشیئر پگھلتے ہیں اور روزانہ 200 تک ٹرک برف گلیشیئر سے کمرشل ضرورت کے لیے لے جایا جاتا ہے۔

درخواست گزار طارق افغان نے عدالت کو بتایا کہ میں خود اس علاقے سے ہوں اور جب گلیشیئر پگھلتے ہیں، تو اس کی وجہ سے سیلاب آتے ہیں اور مردان تک پہاڑوں سے برف گرمیوں میں آتی ہے اور بیچی جاتی ہے۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کو کوئی پروا نہیں ہے اور زرعی زمینیں ختم ہو رہی ہیں، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس پر مکمل پابندی عائد کرتی۔

جسٹس وقار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا، ’محکمہ جنگلات کو اس کی نگرانی کرنی چاہیے، جس طرح درختوں کو لے جانے پر پابندی ہے، اسی طرح اس پر بھی پابندی لگائی جائے۔‘

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ حکومت کو خود اس کے لیے اقدامات کرنے چاہییں، کیونکہ برف راستوں پر ہو گی تو سیاح اس سے لطف اندوز ہوں گے۔

طارق افغان نے کہا کہ ارجنٹینا اور تاجکستان نے گلیشئر پر قانون سازی کی ہے، تو پاکستان بھی اس کے لیے قانون سازی کرے اور گلیشئر کی غیر قانونی کٹائی فوری طور پر روک دی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات