وزن کم کرنے والی نئی دوا، جو لوگوں کو اپنے جسمانی وزن کا چوتھائی حصہ کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے، نے اپنی نوعیت کے پہلے براہ راست موازنے میں موٹاپے کی تمام موجودہ دواؤں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب تک صرف وزن کم کرنے کی سرجری ہی ایسے نتائج دے سکی ہے۔
برطانیہ میں 25.9 فیصد افراد موٹاپے کا شکار اور مزید 37 فیصد زائد وزن کے حامل ہیں، اور چوں کہ موٹاپا دل کے امراض اور سرطان سمیت 250 سے زائد دائمی بیماریوں سے جڑا ہوا ہے اس لیے ماہرین اس پیش رفت کو ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
وزن کم کرنے والے ٹیکوں کا ’کنگ کانگ‘ کہلانے والا ’مونجارو،‘ جس کا اصل نام ٹرزپیٹائیڈ ہے، ہفتے میں ایک بار لگنے والا انجیکشن ہے جو برطانوی محکمہ صحت کی طرف سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کے علاج کے لیے منظور شدہ ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس کے استعمال سے کچھ افراد 18 مہینوں میں اپنے جسمانی وزن کا 25 فیصد تک کم کر سکتے ہیں۔ یہ کارکردگی اسی مدت میں دیگر مقبول دوا ویگووی کے نتائج کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔
تازہ ترین ٹرائل میں امریکہ بھر سے 751 افراد شامل تھے جو زائد وزن یا موٹاپے کا شکار تھے اور انہیں وزن کے معاملے میں صحت کا کم از کم ایک اور مسئلہ درپیش تھا، لیکن ذیابیطس نہیں تھی۔ شرکا کو ہر ہفتے زیادہ سے زیادہ قابل برداشت مقدار میں زیپ باؤنڈ کے ٹیکے لگائے گئے، یعنی 10 ملی گرام یا 15 ملی گرام، یا ویگووی کے ٹیکے 1.7 ملی گرام یا 2.4 ملی گرام طاقت کے۔
کلینیکل ٹرائل کے شرکا جنہوں نے ٹرزپیٹائیڈ لی، جو ’زیپ باؤنڈ‘ یا ’مونجارو‘ کے نام سے فروخت ہوتی ہے، انہوں نے 72 ہفتے میں اوسطاً 50 پاؤنڈ (22.8 کلوگرام) وزن کم کیا، جب کہ جنہوں نے سیماگلوٹائیڈ، یعنی ویگووی استعمال کی، انہوں نے تقریباً 33 پاؤنڈ (15 کلوگرام) وزن کم کیا۔ یہ تحقیق، جو کمپنی لِلی کی فنڈنگ سے کی گئی اتوار کو نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئی۔
اس بات نے ٹرزپیٹائیڈ کو بڑے پیمانے پر وزن کم کرنے کے لیے اس وقت مارکیٹ سب سے مؤثر دوا بنا دیا ہے جس میں آپریشن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ دوا نجی طور پر ان افراد کے لیے دستیاب کی گئی ہے جن کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) 30 یا اس سے زیادہ ہے، یا جن کا بی ایم آئی 27 سے 30 کے درمیان ہے اور وہ وزن کی وجہ سے لگنے والی کسی بیماری جیسے دل کے مرض یا ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہیں۔
لیکن یہ سب اچھا تو لگتا ہے لیکن کیا درست بھی ہے؟
ماہرین نے اوزمپک اور ویگووی کی خطرناک مقداروں سے خبردار کیا ہے۔
مونجارو وزن کم کرنے والے ٹیکوں کی اس فہرست میں تیسرا ٹیکہ ہے جو برطانیہ میں دستیاب ہیں، اور یہ تمام بھوک سے متعلق ہارمونز پر اثر ڈال کر بھوک کم کرتے ہیں۔ 2020 میں برطانیہ میں دستیاب پہلا وزن کم کرنے والا ٹیکہ ’سیکسینڈا‘ (یا لیراگلوٹائیڈ) تھا۔ یہ روزانہ ایک بار خودکار انجیکشن پین کے ذریعے لیا جاتا ہے، اور ٹرائلز میں تقریباً 56 فیصد مریضوں نے اپنے جسمانی وزن کا 10 فیصد کم کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرا ٹیکہ ’ویگووی‘ تھا (جو سیماگلوٹائیڈ استعمال کرنے والے برانڈز میں سے ایک ہے، جیسا کہ ’اوزیمپک‘)، جو ستمبر 2023 میں متعارف کرایا گیا ان نئی دواؤں کی طرح۔ اسے بھی ہفتے میں ایک بار لگایا جاتا ہے اور نتائج آنے میں چند ہفتے لگ سکتے ہیں۔
ابتدا میں اوزمپک کو این ایچ ایس نے ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں کے خون میں نشاستہ کنٹرول کرنے کے علاج کے طور پر منظور کی گئی، لیکن بعد میں اسے وزن کے مسائل کا شکار افراد کو باقاعدہ منظوری کے بغیر بڑی تعداد میں تجویز کیا جانے لگا۔ اس کے نتیجے میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں اور ملک بھر میں اس دوا کی قلت پیدا ہو گئی۔
نتیجتاً ویگووی، جو خاص طور پر وزن کم کرنے والے مریضوں کے لیے تیار کیا گیا ایک الگ برانڈ ہے، اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا۔ مونجارو اور اسی طرز کی دیگر نئی دواؤں کی آمد نے ملک گیر قلت کے دوران کچھ حد تک ریلیف فراہم کیا، حالاں کہ انتظار کی فہرستیں اب بھی بڑھ رہی ہیں۔
یہ دیگر دواؤں کے مقابلے میں کیسی ہے؟
ماہرین کے مطابق بڑا فرق یہ ہے کہ اس دوا سے آپ کتنا زیادہ وزن کم کر سکتے ہیں۔ کنگز کالج لندن میں اینڈوکرائنولوجی اور موٹاپے کی پروفیسر باربرا میک گوان کہتی ہیں کہ ’ویگووی پہلے ہی بہت مؤثر تھی، اور ٹرائلز میں یہ ثابت ہوا کہ 18 مہینوں کے اندر مریض اپنے جسمانی وزن کا 15 فیصد تک کم کر سکتے ہیں۔‘
لندن میں مقیم جنرل فزیشن اور موٹاپے کے علاج کے پروگرام تجویز کرنے والی ایپ اوویوا کے طبی ماہر، ڈاکٹر ٹام کرٹس کہتے ہیں کہ ’جب آپ اپنے جسمانی وزن کا 10 فیصد سے زیادہ کم کر لیتے ہیں، تو یہ امکان خاصا بڑھ جاتا ہے کہ آپ موٹاپے سے جڑے دائمی خطرات، مثال کے طور پر دل کی بیماری اور فالج، سے دوچار ہو جائیں گے۔‘
’پہلی ایسی دوا کا آنا جو لوگوں کو 10 فیصد سے زائد وزن کم کرنے میں مدد دے سکتی ہو، موٹاپے کی دوا کے لیے سنگ میل لمحہ تھا۔‘
لیکن مونجارو پر کی جانے والی تحقیق، جسے ’سرماونٹ-ون ٹرائل‘ کہا جاتا ہے، سے ظاہر ہوا کہ مریضوں نے اپنے ابتدائی وزن کا اوسطاً پانچواں حصہ کم کیا جب کہ کچھ نے تو ایک چوتھائی تک وزن کم کیا۔ میک گوان کہتی ہیں کہ ’بڑی تبدیلی یہ ہے کہ مونجارو کے ساتھ ہم ایسا وزن کم ہوتا دیکھ رہے ہیں جیسا کہ بیریاٹرک (وزن کم کرنے کی) سرجری کے بعد ہوتا ہے۔‘
’یہ موٹاپے کے علاج میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہے، کیوں کہ اب تک طرز زندگی میں تبدیلیوں اور سرجری کے درمیان ایک بہت بڑا خلا موجود تھا۔ یہ نئی دوائیں اس خلا کو پُر کر رہی ہیں۔‘
یہ دوا کیسے کام کرتی ہے؟
ڈاکٹر لیوک پریٹسائیڈز، جو جنرل فزیشن اور مردانہ صحت سے متعلق ایپ نیومن کے میڈیکل ڈائریکٹر ہیں، کہتے ہیں کہ وزن کم کرنے والے تینوں ٹیکے ایک ہارمون جی ایل پی ون کی نقل کرتے ہیں، جو بھوک پر اثر ڈالتا ہے اور خون میں شکر کی سطح کو مستحکم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن مونجارو میں ایک اضافی ہارمون بھی شامل ہوتا ہے جسے جی آئی پی یا گیسٹرک انہی بیٹری پیپٹایئڈ (gastric inhibitory peptide) کہا جاتا ہے۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ جی آئی پی ان اثرات کو مزید بڑھا دیتا ہے اور لوگوں کو کم کھانے میں مدد دیتا ہے۔
مونجارو کو این ایچ ایس نے ٹائپ ٹو ذیابیطس کے علاج کے لیے منظور کیا اور دسمبر 2024 میں اسے موٹاپے کے علاج کے لیے بھی منظوری مل گئی، اور اب یہ برطانیہ میں ماہرین کی نگرانی میں وزن کم کرنے کی سروسز کے تحت این ایچ ایس سے دستیاب ہے۔
یہ دوائیں بھوک کم کرتی ہیں اور خون میں شکر کی سطح کو زیادہ دیر تک مستحکم رکھنے کا کام معدے کے خالی ہونے کی رفتار کو سست کر کے کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے زیادہ تر مضر اثرات نظام ہضم سے متعلق ہوتے ہیں، جن میں سب سے عام متلی ہے جو 22 فیصد مریضوں میں دیکھی گئی۔ اسہال 21.5 فیصد میں۔ قے 13 فیصد میں اور قبض نو فیصد تک مریضوں میں دیکھی گئی۔
کیا ان ادویات کے کوئی طویل مدتی ضمنی اثرات ہیں؟
ڈاکٹر کرٹس کہتے ہیں کہ ’جیسے کہ تیزی سے وزن کم کرنے کے کسی بھی عمل میں ہوتا ہے، لوگ چربی تو کم کرتے ہی ہیں لیکن کافی حد تک پٹھے بھی کھو دیتے ہیں۔‘
’لہٰذا اگر مریض اس دوا کے استعمال کے دوران اپنی غذا میں پروٹین کی مقدار کا خاص خیال نہ رکھیں اور اپنی روزمرہ سرگرمیوں میں مزاحمتی ورزش شامل نہ کریں، تو خطرہ یہ ہے کہ وہ وہ پٹھے بھی کھو بیٹھیں گے جو صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور جو طویل مدت کے دوران خون میں شکر اور بھوک کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘
’اور اگر دوا بند کر دی جائے تو لوگ دوبارہ چربی چڑھا لیتے ہیں لیکن پٹھے واپس نہیں ملتے۔‘
مونجارو کے کلینیکل ٹرائلز میں طویل مدتی خطرات میں ایک خطرہ لبلبے کی سوزش کا بھی شامل ہے، جو شدید پیٹ درد کا باعث بنتی ہے۔ میک گوان کے بقول: ’لبلبہ ہاضمے اور بھوک سے متعلق کئی ہارمونز پیدا کرتا ہے، اس لیے شاید اسی میں کوئی چیز ہے جو اس خطرے کا باعث بنتی ہے، لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا کہ کیوں۔‘ اسی لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ اپنے مخصوص خطرات کے بارے میں اپنے ڈاکٹر سے بات کریں۔
کیسے پتہ چلے گا کہ کون سی دوا آپ کے لیے موزوں ہے؟
چند عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ کہنا ہے ڈاکٹر کیتھرین باسفرڈ کا، جو پریکٹسنگ جنرل فزیشن ہیں اور نجی سطح پر ایسڈا آن لائن ڈاکٹر کے ذریعے دوا تجویز کرتی ہیں۔ ’سیکسینڈا کو روزانہ لگانا پڑتا ہے، اس لیے اگر کوئی مضر اثرات ظاہر ہوں تو اس کی خوراک جلدی تبدیل کی جا سکتی ہے تاکہ انہیں بہتر طریقے سے کنٹرول کیا جا سکے۔‘
’ویگووی اور مونجارو کے ساتھ بار بار انجیکشن لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ ہفتہ وار لگائے جاتے ہیں کیوں کہ یہ جسم میں آہستہ آہستہ تحلیل ہوتے ہیں۔ اگر آپ ویگووی یا مونجارو سے منسلک مضر اثرات سے پریشان ہوں، تو ساکسینڈا آپ کے لیے زیادہ موزوں ہو سکتی ہے۔
’بہر حال ہر دوا وزن کم کرنے میں مؤثر ہے اور تقریباً ایک ہی طریقے سے کام کرتی ہے۔ اسی لیے ذاتی ترجیحات، طرز زندگی، طبی ریکارڈ اور ممکنہ مضر اثرات کو ڈاکٹر کے ساتھ مل کر جانچنا نہایت اہم ہے۔‘
لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب انتخاب کی گنجائش ہو۔ فی الحال مریض کو جو دوا تجویز کی جاتی ہے، وہ زیادہ تر اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ کیا دستیاب ہے۔ جہاں تک اہل ہونے کا تعلق ہے، اگر آپ کا بہ ایم آئی 27 یا اس سے زیادہ ہے، تو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
پریٹ سائیڈز کہتے ہیں کہ وہ اس قسم کے علاج کی تجویز ان صورتوں میں دے سکتے ہیں جہاں نہ صرف دائمی بیماریاں جیسے دل کی بیماری اور ہائی بلڈ پریشر شامل ہوں بلکہ عام مسائل جیسے جوڑوں کا درد، نیند میں سانس رکنے کی بیماری اور مردانہ کمزوری بھی شامل ہوں۔ ان مسائل موٹاپے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
جہاں تک ان دواؤں کے استعمال کے دورانیے کا تعلق ہے، تو ان میں سے کئی دواؤں کو فی الحال نائس (نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسی لینس) کی جانب سے وزن کم کرنے کے لیے صرف دو سال کے استعمال کی منظوری ملی ہے۔ میک گوان کہتی ہیں کہ ’ٹرائلز سے پتہ چلتا ہے کہ جب لوگ ویگووی اور مونجارو جیسی دوائیں چھوڑتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ وہ عموماً دوبارہ وزن بڑھا لیتے ہیں۔ موٹاپا ایک دائمی بیماری ہے اور اسے سب غلط سمجھتے ہیں۔‘
ان کے مطابق سادہ جواب یہ ہے کہ دوا کا استعمال جاری رکھا جائے۔
مونجارو کو این ایچ ایس نے ٹائپ ٹو ذیابیطس کے علاج کے لیے منظور کیا اور جو مریض اسے اس مقصد کے لیے لیتے ہیں وہ عمر بھر اس کا استعمال جاری رکھتے ہیں۔ میک گوان کہتی ہیں کہ یہی طریقہ موٹاپے کے معاملے میں بھی مؤثر ہو سکتا ہے۔
’ہائی بلڈ پریشر یا کولیسٹرول کو ہی لیجیے۔ اگر میں آپ کو بلڈ پریشر کی دوا دیتا ہوں تو آپ کا بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے، لیکن اگر آپ دوا لینا بند کر دیں تو بلڈ پریشر دوبارہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسا ہی اس وقت بھی ہوتا ہوتی ہے جب میں آپ کو کولیسٹرول کم کرنے کے لیے دوا دیتا ہوں۔
’موٹاپا بھی ایک دائمی بیماری ہے جو حیاتیاتی، جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل سے پیدا ہوتی ہے اور موٹاپے کا شکار افراد میں عموماً آنتوں کے ایسے مسائل ہوتے ہیں جو ان کی بھوک کے نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ ایسی دوائیں ان کی بھوک کم کرتی ہیں اور طویل مدت تک اس حالت کو قابو میں رکھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔‘
اس لیے ایک آنتوں کے ماہر ڈاکٹر ان دواؤں کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کنگز کالج لندن میں جینیاتی وبائی امراض کے پروفیسر اور زوئی ایپ کے شریک بانی ٹم سپیکٹر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ نئی دوائیں بعض افراد کے لیے بے حد فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔
تاہم، ان کا خیال ہے کہ ان کا استعمال اب بھی طرز زندگی میں تبدیلیوں، جیسے کہ غذا اور ورزش کے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر، ان دواؤں کے مضر اثرات میں سے ایک متلی ہے۔ اس لیے جسم کو درکار غذائی اجزا لینا زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ دوائیں بھوک کو نمایاں طور پر کم کر دیتی ہیں، اس لیے یہ اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ صحت مند غذا کھائیں۔ اگر آپ کم کھا رہے ہیں، اور جو کچھ کھا رہے ہیں وہ غیر معیاری ہے، تو غذا کی کمی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘
وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ دونوں دوائیں پیٹ کی علامات پیدا کر سکتی ہیں، جن میں متلی، اسہال اور قبض شامل ہیں۔
’قلیل مدت میں یہ دوائیں کھانے کی مقدار کم کر کے خون میں شکر کی سطح کو کم کرتی ہیں، اور اسی طرح خون میں چکنائی کی سطح کو بھی گھٹاتی ہیں۔ یہ معدے کے خالی ہونے کی رفتار کو بھی سست کر دیتی ہیں، جس سے ڈکار اور سینے کی جلن جیسے مسائل زیادہ ہو سکتے ہیں۔ فی الحال ہمیں واقعی یہ معلوم نہیں کہ ان دواؤں کے طویل مدتی اثرات کیا ہوں گے۔‘
یہ دوائیں زیادہ تر ایک جیسے طریقے سے کام کرتی ہیں، اور چوں کہ یہ نسبتاً نئی ہیں، اس لیے اپنی کارکردگی افراد کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دوائیں غیر معمولی حد تک مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں لیکن یہ کوئی جادوئی حل نہیں ہیں۔
’ڈاکٹر کرٹس کے مطابق: ’میں دو سال پہلے وزن کم کرنے والے پہلے ٹیکوں کے ابتدائی مرحلے میں موٹاپے کے علاج کی ایک سروس میں کام کر رہا تھا۔ ‘
’ہم ابھی صرف ان ابتدائی مریضوں تک پہنچے ہیں جو اپنے دو سالہ کورس کے اختتام پر ہیں، اس لیے ہمارے پاس ابھی تک یہ جاننے کے لیے کافی ٹھوس ڈیٹا موجود نہیں کہ جب لوگ دوا بند کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ ہم ٹرائل ڈیٹا سے جانتے ہیں کہ اگر طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے، تو لوگ ایک سال کے اندر اپنا دو تہائی کم کیا ہوا وزن دوبارہ حاصل کر لیتے ہیں۔‘
اس کا مطلب ہے کہ ورزش کو خیرباد کہنا ابھی ٹھیک نہیں۔
© The Independent