خیبر پختونخوا کے علاقے شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کی پولیس کے مطابق 19 مئی کو مبینہ ڈرون حملے میں چار بچوں کی اموات کے خلاف دیا جانے والا دھرنا انتظامیہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد پیر کو ختم کردیا گیا ہے۔
شمالی وزیرستان پولیس کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) وقار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ جرگہ کا انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوئے اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔
وقار احمد نے بتایا کہ ’دھرنا جہاں پر جاری تھا، اس روڈ کو بھی کھول دیا گیا اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔‘
معاملہ کیا تھا؟
میر علی کے گاؤں ہرمز میں ایک گھر میں دھماکے کے دوران چار بچوں کی موت واقع ہوئی تھیں اور اہل خانہ کے مطابق صبح سویرے دھماکہ مبینہ ڈرون حملے کی وجہ سے ہوا تھا۔
بچوں کے والد شاہ فہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ صبح سویرے بچے سکول جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ صحن میں مبینہ ڈرون حملہ ہوا ’جس میں میرے تین بچے اور ایک بھتیجے کی اموات ہوئیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس واقعے میں شاہ فہد کے مطابق ان کی اہلیہ بھی زخمی ہوئی تھیں۔ واقعے کی پولیس رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے تبادلے میں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
گذشتہ دنوں پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کا بھی اس واقعے پر بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ سکیورٹی فورسز کو بد نام کرنے کی سازش ہے اور اس واقعے کی تفتیش کی جائے گی۔
واقعے کے بعد اتمانزئی قبیلے نے میر علی میں دھرنا شروع کیا تھا اور حکومت کے سامنے مطالبات رکھے گئے تھے۔
بعد میں جرگہ تشکیل دیا گیا تھا اور تین دنوں کے مذاکرات کے بعد ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا ہے۔
دھرنے کے منتظمین کے مطالبات میں علاقے میں دو اعلٰی سرکاری افسران کے تبادلے، واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے اور علاقے میں امن قائم کرنا شامل تھے۔
جرگے میں جمعیت علمائے اسلام کے قبائلی اضلاع کے امیر اور سابق سینیٹر مولانا محمد جمال الدین بھی شامل تھے اور ان کے مطابق جرگے میں عوامی مطالبات تسلیم کیے گئے۔
دھرنا منتظمین کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سرکاری حکام نے دھرنا منتظمین کے جائز اور قانونی مطالبات تسلیم کیے اور علاقے میں دیر پا امن قائم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔