شمالی وزیرستان میں ایک دھماکے میں قتل کیے جانے والے بچوں کے ورثا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی لاشیں اس وقت دفنائیں گے جب ان کا قصور بتایا جائے گا۔
’چار دن سے ہمارے چار معصوم بچوں کی لاشیں حکام کے سامنے رکھی ہوئی ہیں اور ہم انہیں تب تک دفن نہیں کریں گے جب تک ہمیں یہ نہ بتایا جائے کہ ہمارے بچوں کا کیا قصور تھا، انہیں کس جرم میں قتل کیا گیا۔‘
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی کے گاؤں ہرمز کے رہائشی شاہ فہد کے تین بچے اور ایک بھتیجا مبینہ طور پر ایک دھماکے میں قتل کیے گئے تھے۔ شاہ فہد اس وقت میر علی میں جاری دھرنے میں شریک ہیں۔
جان سے جانے والے بچوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ گھر کے صحن میں ایک زوردار دھماکے میں جان سے گئے۔ ان کے مطابق یہ دھماکہ ایک مبینہ ڈرون حملہ تھا، تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ حملہ کس نے کیا۔
واقعے کی تفصیل
شاہ فہد نے بتایا کہ ’میرے بچے صبح ناشتہ کرنے کے بعد سکول جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا، جس میں میرے تین بچے اور ایک بھتیجا جاں بحق ہو گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک بچے کی عمر 12 سال تھی، دوسرے کی آٹھ سال، تیسرے کی پانچ سال جبکہ بھتیجے کی عمر تقریباً ساڑھے چھ سال تھی۔ اس کے علاوہ ان کا ایک معذور بیٹا زخمی بھی ہوا ہے۔
شاہ فہد نے بتایا کہ ’حکام ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ یہ ڈرون حملہ نہیں تھا، لیکن ہم نے اپنی آنکھوں سے ڈرون کو دیکھا۔ اب ہم انصاف کے لیے دھرنے پر بیٹھے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ہم نے علاقے میں امن کی خاطر کئی بار قربانیاں دی ہیں، یہاں تک کہ اپنے گھر بار بھی چھوڑے، لیکن اگر ریاست امن قائم نہیں کر سکتی، تو ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ہمیں امن کے ساتھ جینے دیا جائے۔‘
واقعے کا پس منظر
مبینہ ذرون حملےہ کے نتیجے میں بچوں کی اموات کا یہ واقعہ19 مئی کو پیش آیا۔ مقامی پولیس تھانے میں درج ابتدائی رپورٹ کے مطابق سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں شاہ فہد کے تین بچوں سمیت چار بچے جاں بحق اور دو خواتین زخمی ہوئیں۔
واقعے کے بعد میر علی میں اتمانزئی قبیلے کے مشران کی سربراہی میں دھرنا شروع کیا گیا ہے، جس میں اہل علاقہ اور متاثرہ خاندان نے بچوں کی تدفین سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ بچوں کی ہلاکت مبینہ ڈرون حملے میں ہوئی ہے۔
فوجی وضاحت
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) نے اس واقعے پر ردِعمل دیتے ہوئے اسے ’سکیورٹی فورسز کو بدنام کرنے کی سازش‘ قرار دیا ہے۔
فوجی بیان کے مطابق: ’تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ واقعہ انڈیا کی حمایت یافتہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائی ہے جو معصوم شہریوں کو بطور ڈھال استعمال کر رہی ہے۔‘
حکومتی خاموشی اور مذاکرات
واقعے کو پانچ دن گزرنے کے باوجود خیبر پختونخوا حکومت اور شمالی وزیرستان پولیس کی جانب سے کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔
گذشتہ روز دھرنا منتظمین اور مقامی انتظامیہ کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے مگر وہ ناکام رہے۔ دھرنا بدستور جاری ہے۔
اتمانزئی قبیلے کے ترجمان مولانا بیت اللہ نے دھرنے کے شرکا سے خطاب میں کہا کہ ’حکام نے وعدہ کیا ہے کہ واقعے کی مکمل تفتیش کی جائے گی، لیکن بچوں کو تو ہم واپس نہیں لا سکتے۔‘
سیاسی ردِعمل اور اگلے اقدامات
دھرنے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی شریک ہیں اور واقعے کی مذمت کر رہے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور میر علی کے نائب صدر احمد الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ضلعی انتظامیہ قبائلی روایات کے مطابق دنبے لے کر جرگہ کرنے آئی تھی، لیکن دھرنا منتظمین کے دو مطالبات ہیں:
- واقعے کی مکمل تفتیش
- دو اعلیٰ سرکاری افسران کی برطرفی‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر مطالبات نہ مانے گئے تو دھرنا پشاور یا اسلام آباد منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔‘