میری ایک دوست پاکستان کی نامی گرامی سرکاری یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔ پچھلے مہینے ان کا فائنل ڈیفنس تھا۔ اس دفاع سے قبل وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھیں۔ پہلے ہی ان کے سپروائزر نے واضح کر دیا تھا کہ اس دفاع کے تمام مالی اخراجات انہیں خود ہی اٹھانے ہوں گے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی پی ایچ ڈی پالیسی کے مطابق، پی ایچ ڈی کمیٹی کے اراکین کے علاوہ، مقالے کا جائزہ کم از کم دو بیرونی ماہرین سے لیا جانا ضروری ہے۔ عموماً سپروائزر ہی ان بیرونی ماہرین کا بندوبست کرتے ہیں۔ جامعات ان ماہرین کو ان کی خدمات کے عوض ادائیگی کرنے کی پابند ہیں لیکن بہت سی سرکاری جامعات کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے۔
سپروائزر اپنے ذاتی تعلقات استعمال کر کے ماہرین کو بلانے کا بندوبست تو کر لیتے ہیں لیکن ان کے پاس ان ماہرین کو ذاتی طور پر کچھ دینے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ نتیجتاً، تمام تر انتظامی اور مالی بوجھ خاموشی سے طالب علموں کے کندھوں پر رکھ دیا جاتا ہے۔
میری دوست کی جامعہ کے پاس اتنا بجٹ نہیں تھا کہ وہ بیرونی ماہرین کو کوئی ادائیگی کر سکتی۔ ان کے ڈیفنس کے لیے ایک ماہر دوسرے شہر سے آ رہے تھے۔ ان کے آنے جانے، رہائش اور کھانے پینے کے تمام اخراجات میری دوست کو اپنی جیب سے برداشت کرنا پڑے۔ تب کہیں جا کر ان کا ڈیفنس ممکن ہو سکا تھا۔
بہت سی سرکاری جامعات میں بیچلر اور ماسٹرز کے ڈیفنس تک میں چائے کا انتظام طالب علم کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض سرکاری جامعات تو تقریبات کے تمام تر اخراجات بھی یہ کہتے ہوئے طلبہ پر ڈال دیتی ہیں کہ آپ اس سارے عمل سے ’تقریبات کا انتظام کرنا‘ سیکھ رہے ہیں۔
ان جامعات میں اکثر وہ طالب علم آتے ہیں جو پاکستان کے ان علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں انہیں بچپن سے بڑوں کا ادب سکھایا گیا ہوتا ہے۔ وہ آگے سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر پاتے اور چپ چاپ یہ مالی بوجھ برداشت کرتے رہتے ہیں۔
اساتذہ بھی بسا اوقات مجبور ہوتے ہیں۔ اگر وہ ڈیفنس میں بیرونی ماہر نہ بلائیں تو طالب علم کی ڈگری لٹک جاتی ہے اور اگر تقریبات نہ کروائیں تو ڈین اور انتظامیہ کی نظروں میں نہیں آ پاتے۔ بعض جامعات میں یہ کام ان کی ترقی سے جڑے ہوتے ہیں۔ محدود تنخواہ اور محدود وسائل میں مجبوراً وہ یہ بوجھ طالب علموں پر ڈال دیتے ہیں۔
اس مسئلے کی بنیادی جڑ حکومت کی جانب سے تعلیم خصوصاً اعلیٰ تعلیم کو بجٹ میں مسلسل نظرانداز کرنا ہے۔ پاکستان میں تعلیم پر مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد بھی خرچ نہیں کیا جاتا جبکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق اس شعبے پر کم از کم چار فیصد خرچ ہونا چاہیے۔ جامعات کو مناسب بجٹ ہی نہیں ملتا تو وہ ڈیفنس کے لیے بھی مناسب انتظامات نہیں کر پاتیں۔
اسی وجہ سے گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ 2024 میں حکومت نے ایچ ای سی کے بجٹ کو 65 ارب روپے سے کم کر کے 25 ارب تک لانے کی تجویز دی تھی جبکہ ایچ ای سی نے 125 ارب روپے کے بجٹ کی درخواست کی تھی۔
اگرچہ بجٹ میں کمی کی تجویز بعد میں واپس لے لی گئی تھی لیکن ایچ ای سی کو ملنے والے 65 ارب روپے اس کی ضروریات پورے کرنے کے لیے کافی نہیں تھے۔ ایچ ای سی کو ملنے والے ناکافی بجٹ کا براہِ راست اثر جامعات پر پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو ماہ قبل کی ایک خبر کے مطابق فیڈرل سطح پر تین جامعات، قائداعظم یونیورسٹی، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اور فیڈرل اردو یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایچ ای سی کی جانب سے ناکافی فنڈز ملنے کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ صوبائی سطح پر معاملہ مزید گھمبیر ہے۔
فنڈز کی شدید کمی کے باعث متعدد جامعات تنخواہوں، پنشنوں اور یہاں تک کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی بھی نہیں کر پا رہیں۔
چند ہفتے قبل ایک ورکشاپ میں بلوچستان سے آئے ہوئے کچھ پروفیسروں سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی جامعہ کے پاس انہیں دینے کے لیے سٹیشنری بھی نہیں ہے۔
جامعات کو مناسب بجٹ نہ ملے تو وہ طالب علموں اور اساتذہ کو ضروری تعلیمی سہولیات بھی نہیں دے پاتیں۔ ان جامعات میں پڑھنے والے طالب علم ڈگری لیتے ہی بیرونِ ملک جانے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں، ہماری برسوں کی سرمایہ کاری سے تیار ہونے والے دیگر ممالک کا مستقبل سنوارنے چلے جاتے ہیں اور ہم اپنا مستقبل مزید اندھیرے میں دھکیل دیتے ہیں۔
اب جب کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ زیرِ غور ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو نمائشی نعرے کی بجائے حقیقی قومی ترجیح بنائے۔ جی ڈی پی میں تعلیم کا حصہ کم از کم بین الاقوامی معیار (یعنی چار فیصد) تک بڑھائے اور خاص طور پر اعلیٰ تعلیم پر سرمایہ کاری کو فوری بنیادوں پر بہتر کرے۔
اعلیٰ تعلیم میں سرمایہ کاری ہی ہماری جامعات کو مضبوط بنائے گی، اساتذہ کو بااختیار کرے گی اور ہمارے طالب علموں کو بہتر تعلیمی تجربہ دے گی ورنہ ان کے پاسپورٹ بن چکے ہیں اور ویزہ لگنے کے منتظر ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔