سندھ تعلیمی اداروں میں اجرک اور ٹوپی کے تحفے پر پابندی کیوں؟

نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’تمام سرکاری سکولوں اور کالجوں میں مہمانوں کو اجرک، ٹوپی، گلدستے یا دیگر تحائف کی روایت سرکاری تقریبات سے ختم کی جائے۔‘

حکومت سندھ نے 16 مئی کو ’مڈ ڈے میل‘ یعنی سکول میں بچوں کے لیے کھانے کی فراہمی کا ایک نیا پروگرام شروع کیا جہاں وزیر تعلیم سردار شاہ بھی موجود تھے (فوٹو/ محکمہ تعلیم سندھ)

سندھ حکومت نے سرکاری سکولوں میں منعقدہ تقریبات کے دوران اجرک، سندھی ٹوپی، پھول یا گلدستے جیسے تحائف دینے کی روایت ختم کر دی ہے جس کا باضابطہ اعلامیہ بھی محکمہ تعلیم نے جاری کر دیا ہے۔

صوبہ سندھ کے وزیر تعلیم سردار شاہ کی جانب سے 27 مئی کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’تمام سرکاری سکولوں اور کالجوں میں مہمانوں کو اجرک، ٹوپی، گلدستے یا دیگر تحائف کی روایت سرکاری تقریبات سے ختم کی جائے۔‘

نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو مہمانوں کے استقبال کے لیے کھڑا کرنے، قطار میں بٹھانے یا پھول نچھاور کروانے جیسے عمل پر بھی پابندی ہوگی۔

محکمہ تعلیم نے تمام ڈائریکٹرز، پرنسپلز، ہیڈ ماسٹرز کو اس پر عملدرآمد کے فوری احکامات جاری کیے ہیں جبکہ خلاف ورزی کی صورت میں ’سخت کارروائی‘ کا بھی کہا گیا ہے۔

یہ فیصلہ کیوں لیا گیا؟

سندھ کے وزیر تعلیم سردار شاہ کی 16 مئی کو کراچی کے ملیر میں واقع ایک سرکاری سکول آمد ہوئی تھی۔ یہ سکول ان تعلیمی اداروں میں شامل تھا جہاں حکومت سندھ نے ’مڈ ڈے میل‘ یعنی سکول میں بچوں کے لیے کھانے کی فراہمی کا ایک نیا پروگرام شروع کیا ہے۔

تقریب میں وزیر کے استقبال کے لیے بچوں کو قطاروں میں کھڑا کیا گیا تھا، ان کے ہاتھوں میں پھول تھے جو انہوں نے مہمانوں پر نچھاور کیے۔ روایتی طور پر گلدستے، اجرک اور سندھی ٹوپی بھی بطور تحفہ پیش کی گئی۔

وزیر تعلیم اس سب پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ ایک چھوٹی سی تقریب کے لیے اتنے پیسے خرچ کر رہے ہیں؟ یہی رقم کسی بچے کی کتاب پر خرچ ہو سکتی تھی، یا سکول کی بنیادی ضرورت پر لگائی جا سکتی تھی، اور سب سے اہم، ان بچوں کو دھوپ میں کیوں کھڑا کیا گیا؟

اسی لمحے وزیر تعلیم  نے واضح ہدایت دیں کہ آئندہ ایسی کوئی روایت نہیں دہرائی جائے گی ’نہ پھول نچھاور ہوں گے، نہ تحائف دیے جائیں گے، نہ بچے پروٹوکول کے لیے کھڑے ہوں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ردعمل محض ایک تقریب تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس نے سندھ بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں کے لیے ایک نئی پالیسی کا راستہ کھول دیا۔

ترجمان وزیر تعلیم عاطف وگھیو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’نوٹیفیکیشن کے بعد ایک غلط تاثر پایا جا رہا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میم صرف اجرک، ٹوپی کے بطور تحفہ پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ اقدام صرف ثقافتی علامات جیسے اجرک یا ٹوپی کی مخالفت نہیں، بلکہ بچوں کو غیر تعلیمی سرگرمیوں میں الجھانے، مالی وسائل کے ضیاع اور رسمی پروٹوکول کی حوصلہ شکنی کی جانب ایک سنجیدہ قدم ہے۔

’ہم سمجھتے ہیں کہ بچوں کا وقت، توانائی اور سکول کا بجٹ صرف اور صرف تعلیم پر لگنا چاہیے۔‘

ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید کہتی ہیں کہ ’وزیر تعلیم کی جانب سے اٹھائے جانے والا اقدام قابل تعریف ہے کیونکہ طالب علموں کا بہتر مستقبل زیادہ اہم ہے اسی پر بنیادی توجہ ہونی چاہیے۔

سعدیہ جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بچوں کا اس طرح کھڑے رہ کر انتظار کرنا پھر استقبال کرنا نا مناسب عمل ہے جبکہ یہ قدم سرکاری اداروں میں سادگی اپنانے اور غیر ضروری اخراجات کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

’تعلیم جیسے اہم شعبے میں فنڈز کا درست استعمال اور مالی نظم و ضبط قائم رکھنے کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان تحائف پر اٹھنے والے اخراجات کو غیر ضروری تصور کیا گیا ہے۔‘

ماہر تعلیم حیدر علی نے جاری کردہ نوٹیفیکیشن پر انڈپینڈنٹ اردو سے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیر تعلیم سندھ کا ارادہ اپنی جگہ درست ہے، کیونکہ اگر تحفوں میں غیر ضروری اخراجات شامل ہوں تو یہ سکولوں اور کالجوں کے محدود بجٹ پر اضافی بوجھ بن سکتے ہیں۔

’ایسے حالات میں یہ اخراجات غیر ضروری تصور کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر طلبہ کو مہمانوں کے استقبال کے لیے قطاروں میں کھڑا رہنا پڑے تو یہ ان کے لیے زحمت کا باعث بنتا ہے۔‘

تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ بین الاقوامی سطح پر تعلیمی اداروں میں مہمانوں کا پُرجوش استقبال اور انہیں روایتی تحائف دینا تربیت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

ماہر تعلیم نے مزید کہا کہ ’بچوں اور اساتذہ کی جانب سے روایتی اشیا جیسے اجرک، ٹوپی یا گلدستے پیش کرنا طلبہ میں جذبہ اور موٹیویشن پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ سادگی کے ساتھ کیا جائے اور قیمتی تحائف سے گریز کیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔

’بچوں میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے مہمانوں کے استقبال کی اجازت ہونی چاہیے، البتہ اس عمل میں مکمل پابندی کے بجائے اصلاحات کی ضرورت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس