کم عمری کی شادی

سماجی طور پہ کم عمر لڑکی ابھی کام کاج اور انسانی رویے سیکھ رہی ہوتی ہے، ایسی صورت میں کسی اور کے گھر جانا اور وہاں بسنا؟

تین اگست 2024 کو لی گئی اس تصویر میں نوبیاہتا کم عمر دلہن آمنہ اپنے شوہر محمد عثمان کے ساتھ صوبہ سندھ کے ضلع دادو کی مین نارا ویلی کے خان محمد ملہ گاؤں پہنچ رہی ہیں، 13 سالہ آمنہ کی شادی پیسوں کے عوض کر دی گئی، یہ فیصلہ ان کے والدین نے سیلاب کے خطرے سے بچنے کے لیے خاندان کی مدد کرنے کے لیے کیا (آصف حسن / اے ایف پی)

کم عمری کی شادی کے خلاف بل آیا اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے غیر شرعی کہہ کر رد کر دیا۔ صدر زرداری صاحب نے اس پہ پھر بھی دستخط کیے اور فقط اسلام آباد میں اس بل کا نفاذ کر دیا گیا، گویا سلطنت شاہ عالم، از دہلی تا پالم، تالیاں!

اسلامی نظریاتی کونسل نے بالکل درست فرمایا، کم عمری کی شادی پہ پابندی لگانا غیر شرعی ہے۔ جب آپ اسلامی نظریاتی کونسل بنا کے اس کے ذمے ایک کام لگائیں گے تو وہ اپنی ذمہ داری تو پوری کریں گے اس لیے ان علما کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، ان کا علم یہی کہتا ہے۔

اب آجاتے ہیں اس مسئلے کی طرف کہ کم عمر لڑکیوں کی شادی سے کیا مسائل ان کی زندگیوں میں در آتے ہیں جو کبھی درست نہیں ہو سکتے۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس وقت ہمارے ہاں جو سماجی نظام رائج ہے اس میں جب لڑکی کی شادی کی جاتی ہے تو اس کا مقصد صرف ایک جسمانی رشتہ قائم کرنا نہیں ہوتا۔ (یاد رہے کچھ مغربی ممالک میں جسمانی رشتہ قائم کرنے کی رضامندی کی عمر 18 سال سے کافی کم بھی شمار کی جاتی ہے۔)

ہمارے سماج میں شادی کا مطلب ایک لڑکی کا اپنا گھر چھوڑ کے دوسرے گھر میں جا کے رہنا بھی ہوتا ہے اور اس دوسرے گھر کے ماحول میں ایک فعال رکن کے طور پہ اپنا کردار بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔

شادی کے بعد جسمانی تعلق قائم کرنے سے اولاد بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس اولاد کو پالنا، اس کی صحت، بنیادی تعلیم اور تربیت کا ذمہ بھی اسی لڑکی کو اٹھانا پڑتا ہے اور اگر خدانخواستہ اس لڑکی کے شوہر کا انتقال ہو جائے یا اسے کوئی موذی مرض چمٹ جائے، تب کمانے کی ذمہ داریاں بھی اسی لڑکی کے سر پہ آجاتی ہیں، جس کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔

ہم سب کبھی بچے بھی رہے ہوئے ہیں۔ اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر دیکھیں کہ نو ، دس سال کی عمر میں ہماری دماغی کیفیت کیا ہوتی تھی؟ سوائے کھیل کود، بھاگ دوڑ، کھلونوں، کپڑوں، دوستوں، کہانیوں، کارٹونز کے سوا کیا سوجھتا تھا؟

چلیے ذرا معاشی طور پہ کمزور گھروں میں دیکھ لیتے ہیں۔ چھہ سات سال کی بچی کو ماں اپنے ساتھ کام پہ لگا لیتی ہے۔ اسے کپڑے دھونے بھی آجاتے ہیں اور وہ چھوٹے بہن بھائیوں کو گود میں لاد کے جھاڑو بہارو آٹا روٹی بھی کر لیتی ہے۔ مگر کیا وہ سماجی طور پہ ایک عورت کا کردار نبھا سکتی ہے؟

لڑکی کی بلوغت اس کی ماہواری کے پہلے دن سے گننی شروع کر دی جاتی ہے کہ لڑکی جوان ہو گئی۔ ایسا نہیں ہوتا۔ کچے ذہن ، کچی سوچ، کی وہ لڑکی ابھی بچی ہی ہوتی ہے الٹا اس حیاتیاتی تبدیلی سے اس کا دماغ شدید متاثر ہوتا ہے اور خود میں آئی اس تبدیلی کو سمجھنے میں اسے ابھی کئی برس لگتے ہیں۔

میڈیکلی بھی اس عمر کی بچی کی بڑھوار ابھی کئی برس تک جاری رہتی ہے جس میں اس کی ہڈیاں ، دانت، بال، کھال، قد، سب ابھی بڑھ رہے ہوتے ہیں۔

سماجی طور پہ کم عمر لڑکی ابھی کام کاج اور انسانی رویے سیکھ رہی ہوتی ہے ابھی تو وہ اپنے ہی گھر میں ایڈجسٹ نہیں ہو رہی ہوتی، سو طرح کے خیال سو سوالات، سو وسوسے اسے گھیرے رکھتے ہیں ایسی صورت میں کسی اور کی گھر جانا اور وہاں جا کے بس جانا؟

لڑکی کی جسمانی بلوغت کے ساتھ اس کی ذہنی بلوغت بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔ تعلیم اور تربیت، دونوں پہلو، مکمل ہوتے ہوتے کم سے کم 18 برس تو لگتے ہی ہیں۔ عقل تو خیر ہماری لڑکیوں کو 18 سال کی عمر میں بھی کہاں آتی ہے (ہم اپنی بچیوں کو گھامڑ رکھنے کا خاص اہتمام کرتے ہیں، ’پکی‘ لڑکیاں ناپسند کی جاتی ہیں۔)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شادی ایک سماجی معاہدہ ہے، اسے موجودہ وقت کے تناظر ہی میں دیکھنا چاہیے، جن لڑکا لڑکی کی شادی کی جا رہی ہوگی وہ، صنعتی انقلاب بعد از کرونا اور مابعد سرد جنگ کی دنیا میں موجود ہوں گے، تو یہ معاہدہ ایسا ہی ہونا چاہیے کہ ان دو افراد کو ایک خاندان کے طور پہ رہنے کی ترغیب دے وگرنہ دنیا بھر میں شادی نامی معاہدہ کو ا ب کس نظر سے دیکھا جا رہا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

دیہات سے تعلق کے باعث کم عمر لڑکیوں کی شادی کے انجام میں بہت قریب سے دیکھتی رہتی ہوں ۔ حالانکہ دیہی معاشرہ برادری سسٹم کی وجہ سے پھر بھی لڑکیوں کو کسی نہ کسی صورت بہت بھیانک انجام سے بچا ہی لیتا ہے مگر یہ آگ کا کھیل ہے۔

ایک نہیں، کئی افراد کی زندگیاں برباد ہوتی ہیں۔ ریاست کا بنایا ہوا قانون بہرحال صورت حال کو بہتر کر ہی دیتا ہے۔ شادیوں پہ ون ڈش اور دو گھنٹے میں تقریب ختم کر دینے کے قانون نے جس طرح لوگوں کے سروں سے بوجھ سرکایا ہے یہ وہی جانتے ہیں جو قرض لے کر اولاد کی شادیاں کرتے تھے۔

عرض یہ ہے کہ کم عمری کی شادی میں کسی کے لیے کوئی فائدہ نہیں، لولی لنگڑی اور دماغی طور پہ مفلوج نسل اور گھریلو مسائل سے جھوجھتا سماج اگر ہمارا خواب ہے تو سو بسم اللہ کیجیے کم عمر لڑکے، لڑکیوں کی شادیاں۔

لڑکی کو 18 سال تک اپنے گھر میں رکھ کے پالنے پوسنے سے خائف ماں باپ اور کم عمری لڑکیوں کو اپنے گھر لا کے مفت کا غلام حاصل کرنے والوں کے علاوہ میرا خیال ہے کہ کسی کو اس قانون پہ کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور یقین کیجیے، ایسے لوگ اسلام آباد کے باہر بھی بستے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ