کیا اقلیتی کمیشن حقوق دلوا سکے گا؟

اگر کمیشن خود مختار نہ ہوا اور اس کی شفارشات پر عمل نہ کیا گیا تو اس کے بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا: اقلیتی رہنما۔

روئٹرز فوٹو

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے رہنماؤں نے سپریم کورٹ کی جانب سے قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق قائم کرنے کی ہدایت کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس بار کمیشن قائم ہوکر رہے گا۔

ساتھ ہی انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن کو مکمل طور پر بااختیار اور خود مختار بنایا جائے تاکہ وہ صرف دکھاوے کا ادارہ نہ ہو بلکہ اقلیتوں کے جان اور مال کے تحفظ کے ساتھ آئینِ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو دیے گیے حقوق پر مکمل طور عمل درآمد کرا سکے۔ 

سپریم کورٹ نے جمعرات کو 2014 میں اقلیتوں کے جان و مال اور حقوق و آزادیوں کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 20 کی روشنی میں قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بنانے کے لیے وفاقی حکومت کو احکامات جاری کیے تھے۔

اس کے علاوہ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 20 کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کے قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لیے ایک عدالتی بینچ بھی تشکیل دیا ہے۔

کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق پر عمل دآرمد کے لیے اقدامات پر ایک مفصل رپورٹ ایک مہینے کے اندر کورٹ میں جمع کروائیں۔

 اقلیتی رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا ہے اگر کمیشن کی سفارشات پر عمل نہ کیا گیا تو اس کے قیام کا مقصد حاصل نہ ہوسکے گا۔

طاہر نوید چوہدری، چیئرمین پاکستان مائینارٹی الائنس، نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام کے اعلانات پہلے بھی ہوئے مگر عمل نہیں ہوا۔ اگر یہ کمیشن بن بھی جائے مگر یہ بااختیار نہ ہوا تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ اِس وقت پاکستان میں اقلیتوں کے بڑے مسائل کیا ہیں جنہیں قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق حل کروا سکے، تو ان کا کہنا تھا، ’اگر کمیشن بنے تو اس کی سفارشات پر بھی عمل کروایا۔ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ وہی سُلوک ہو رہا ہے جو تقسیم ہند سے پہلے مسلمانوں کے ساتھ ہوتا تھا۔‘

’ہمیں کبھی برابر کا شہری تسلیم نہیں کیا گیا۔ میں دعوی سے کہتا ہوں کہ آج تک مذہبی اقلیت کا کوئی فرد کسی بھی دہشت گردی میں ملوث نہیں پایا گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا توہین مذہب کا الزام لگا کر گرفتار کیے گیے افراد کا اگر آبادی کے لحاظ سے تناسب نکالا جائے تو اقلیت کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اگر کسی مسلمان پر توہین مذہب کا الزام لگے تو اسے ایک فرد کا جرم سمجھا جاتا ہے مگر یہ الزام کسی اقلیتی فرد پر لگے تو پوری برادری پر الزام لگاکر حملہ کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’ایسی صورتحال کے بعد 2009 میں 500 ہندو خاندان ملک سے ہجرت کرکے چلے گئے اور مسیحی ملائشیا ،تھائی لینڈ اور دیگر ممالک ہجرت کرتے جارہے ہیں۔‘

 ’سیاسی پارٹیوں کی اقلیتی ونگ سرونٹ کوارٹر جیسی ہیں۔ اقلیتوں سے نوکروں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سبزی لے آؤ، روٹیاں پکڑلو، بیٹھ جاؤ، اب یہ تبدیل ہونا چاہیے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں غیر مسلم نابالغ بچیوں کے زبردستی مذہب کی تبدیلی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نو سے13 سال کی کسی بچی کو اغوا کرکے زبردستی مذہب تبدیل کرکے کہا جاتا کہ اب وہ مسلمان ہوگئی ہے اور شادی کرلی ہے آپ واپس چلے جاؤ۔‘

’ ہمیں آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کا حوالہ دے کر کہا جاتا ہے  سب شہریوں کے برابر کے حقوق ہیں مگر آئین میں آرٹیکل 41 بھی  ہےجو اقلیتوں کو صدر پاکستان یا وزیراعلی بننے سے روکتا ہے۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے اس کمیشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر انجینیئر گیان چند نے کہا پہلے بھی سپریم کورٹ کے احکامات کے باجود یہ کمیشن نہیں بنایا گیا مگر ’اب ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کمیشن بنایا جائے گا اور یہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر بہتر طور پر کام کرے گا۔‘

پاکستان سکھ کونسل کے سربراہ سردار رمیش سنگھ نے کہا، ’قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق مکمل طور پر غیر سیاسی کمیشن ہونا چاہیے ورنہ اس کا مقصد ہی ختم ہوجائے گا۔

’یہ کمیشن اقلیت کے لیے کام نہیں کر سکتا کیوں کہ اب تک جو بھی کمیشن یا کمیٹی بنی اس میں سیاسی لوگ یا کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ارکان پارلیمان کو لیا جاتا ہے تو اس بار ایسا نہ کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستانی سکھوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا پاکستان میں صرف پنجاب میں سکھ میریج ایکٹ بنا ہوا ہے باقی صوبوں میں بھی یہ قانون بنایا جائے۔

ان کا مطالبہ تھا کہ سندھ میں گردواروں پر قبضہ ختم کروایا جائے اور تاریخی یا نئے گردوارے سکھوں کے حوالے کیے جائیں۔ اس کے علاوہ سکھوں کے قومی اسمبلی یا سینیٹ میں کوئی نمائندگی نہیں لہذا سیاسی پارٹیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ سکھوں کو نمائندگی دیں۔

پاکستان میں اقلیت مخالف واقعات کے باعث پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی ہوتی ہے۔ جون 2019 میں امریکی وزارت خارجہ کی بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں دعوی کیا  گیاکہ پاکستان نے مذہبی آزادی کو فروغ دینے اور مذہبی بنیادوں پر عدم رواداری کی روک تھام کے لیے کچھ مثبت اقدام لیے ہیں مگر2018 میں عمومی طور پر پاکستان میں مذہبی آزادی کا رجحان منفی نوعیت کا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2018 کے دوران انتہا پسند گروہوں اور دیگر افراد نے مذہبی اقلیتوں بشمول ہندو، مسیحوں، سکھوں، احمدیوں اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک برقرار رکھا اور ان پر حملے جاری رکھے۔ 

کمیشن برائے اقلیتی حقوق قیام کے اعلانات نئے نہیں۔ ماضی میں کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام کے کئی بار اعلانات کیے گیے مگر ان پر عمل نہ ہوا۔

اس کمیشن کے تشکیل کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ تقسیم ہند کے بعد 1950 میں پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے درمیان ہونے والے معاہدے میں، جسے ’میثاق دہلی‘ یا ’لیاقت۔ نہرو پیکٹ‘ کہا جاتا ہے، طے پایا تھا کہ دونوں ملک کمیشن برائے اقلیتی حقوق بنا کر اپنی مذہبی اقلیتوں کو بلا امتیاز مذہب، شہری حقوق میں مکمل برابری کا درجہ، جان، مال، عزت و آبرو اور ثقافت کا تحفظ، نقل و حرکت کی آزادی اور تقریر و تحریر اور کاروبار اور عبادت کی آزادی دیں گے، مگر دونوں ممالک میں اس پر عمل نہ ہوسکا۔ 

 پشاور میں ایک گرجا گھر پر 22 ستمبر 2013 ہونے والے حملے میں ایک سو سے زائد مسیحی شہری ہلاک ہونے پر سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس مشیر عالم کے ساتھ تین رکنی بنچ تشکیل دیا، جس کو اقلیتوں کے جان و مال اور حقوق و آزادیوں کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 20 کی روشنی میں جامع قانون سازی کی بنیادیں وضع کرنی تھی اور ریاست کو عملی اقدامات اٹھانے کا پابند بنانا تھا۔

اس تین رکنی عدالتی بنچ نے 19 جون 2014 کو ایک تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بنانے کے احکامات دیے مگر اس پر عمل نہ ہوسکا۔ اب تین اکتوبر 2019 کو سپریم کورٹ نے دوبارہ اس کمیشن کے قیام کے احکامات دیے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان