مسیحی خاتون کی ’زبردستی‘ تبدیلِی مذہب اور نکاح کا کیس الجھ گیا

مسیحی خاتون صائمہ اقبال کے مُتنازع بیانات کے بعد قائم ہونے والی جوڈیشل انکوائری کمیٹی 15 دنوں میں رپورٹ دے گی۔

نوید اقبال کی فراہم کردہ شادی کی تصویر۔ 

سوشل میڈیا کے ذریعے منظرِعام پر آنے والے مسیحی خاتون صائمہ اقبال کے مبینہ اغوا، زبردستی مذہب کی تبدیلی اور نکاح کے کیس میں مُتنازع بیانات سامنے آنے کے بعد معاملے کی قانونی پیچیدگیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

یکم مارچ کو نیو اقبال ٹاؤن کے رہائشی نوید اقبال نے تھانہ کھنہ میں ایف آئی آر درج کروائی جس میں ان کا کہنا تھا کہ 25 فروری سے ان کی بیوی صائمہ اقبال گھر سے لاپتہ ہیں اور انہیں معلوم ہوا ہے کہ خالد ستی نامی شخص نے انہیں اغوا کیا ہے۔      

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے بتایا کہ پانچ مارچ کو پولیس نے صائمہ اقبال کو ملزم خالد ستی کے ایک رشتہ دار کے گھر سے بازیاب کروانے کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت رکارڈ کیے گئے بیان میں صائمہ نے اقرار کیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل اور نکاح کیا ہے۔

ڈپٹی کمیشنر نے کہا کہ حساس معاملہ ہونے کے باعث صائمہ کو دارالاامان بھجوا دیا گیا ہے جہاں ان کے شوہر نوید اقبال اور تین بچوں سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔

پولیس کے مطابق صائمہ نے میڈیکل کروانے سے منع کر دیا۔ دارالاامان میں صائمہ نے اپنی خالہ کے گھر جانے کی درخواست دی اور چلی گئیں۔

ویڈیو بیان

پندرہ مارچ کو ان کے شوہرنوید اقبال کی طرف سے فیس بک پر ڈالی گئی ویڈیو میں صائمہ کا مختلف بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ زبردستی کی گئی تھی۔

صائمہ نے کہا کہ 25 فروری کو ان کے شوہر کے نوکری پر جانے کے بعد خالد اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ان کے گھر میں گھس آیا اور انہیں تشدد کا نشانا بناتے ہوئے اپنے ساتھ زبردستی لے گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ خالد ستی ان کو ڈراتا دھمکاتا رہا، ان کے بچوں، خالہ اور بھائی کو قتل کرنے کے دھمکی دی اور دوسرے دن زبردستی کچہری لے جا کے ان کا مذہب تبدیل کروایا۔

اپنے ہاتھوں پر نشانات دیکھاتے ہوئے صائمہ نے کہا کہ خالد ستی نے انہیں مارا، ان کا لگاتار ریپ کیا اور پھر دو دن بعد ان سے نکاح کرلیا۔    

ویڈیو میں نوید نے کہا ان کی بیوی اور بچوں کی جان کو خطرہ ہے اور وہ کسی محفوظ جگہ چھپے ہوئے ہیں۔

انہوں نے حکومت اور سرکاری اداروں سے انصاف کی اپیل کی اور یہ بھی التجا کی کہ اقلیت ہونے کی وجہ سے یہ واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا اس لیے ان کی مدد کی جائے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب نوید اقبال سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ 25 فروری کو صائمہ کے اغوا کے بعد اگلے دن جب وہ ایف آئی آر کے اندراج کے لیے تھانے گئے تو ملزم کے بااثر ہونے کی وجہ سے پولیس نے ایف آئی آر کا اندارج نہ کیا۔

جب یکم مارچ کو انہوں نے پولیس کو خود سوزی کی دھمکی دی تو پھرایف آئی آر کا اندراج ہوا۔

نوید نے کہا: ’ہماری شادی کو سولہ سال ہو گئے ہیں اور ہمارے تین بچے بھی ہیں ۔ لیکن اب ہم اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں۔ صائمہ کو مخفوظ جگہ پر منتقل کر رکھا ہے اس لیے ملاقات نہیں کروائی جا سکتی۔‘

صائمہ کے متنازع بیان سے کیس میں قانونی پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں اور ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے جوڈیشل انکوائری کمیٹی قائم کر دی ہے جو پندرہ دنوں میں رپورٹ مرتب کرے گی۔

دفعہ 164 کے بیان کی اہمیت

حمزہ شفقات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد دوسرا اہم مرحلہ گواہوں کے بیانات ہوتا ہے۔ دفعہ 164 کے تحت کوئی بھی ملزم مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہوتا ہے۔ بیان کے وقت کمرے میں کوئی اہلکار موجود نہیں ہوتا اور بغیر کسی دباؤ کے بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام میں اس دفعہ کے تحت بیان کی بہت اہمیت ہے۔ اس بیان کوعدالتی اقبال بھی کہا جاتا ہے۔ عدالت اسی بیان کی روشنی میں مقدمے کی کارروائی آگے بڑھاتی ہے۔

ماہرِ قانون بیرسٹر ظفراللہ خان سے جب اس معاملے پر قانونی رائے لی گئی تو انہوں نے کہا: ’دفعہ 164 کے بیان کی اہمیت ہے لیکن بیان دینے والا اگر مُکر جائے تو دوبارہ بیان ہو سکتا ہے اور پھر تمام فریقین کو نوٹس جاری کیے جاتے ہیں اور دونوں بیانات کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ حتمی نتیجہ نکالا جا سکے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ حتمی رپورٹ کے بعد کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈاکٹر قبلہ ایاز کے مطابق یہ معاملہ مذہبی طور پر بھی پیچیدہ ہے کیونکہ خالد کے مبینہ نکاح سے پہلے صائمہ پہلے ہی نوید کے مسیحی نکاح میں تھیں۔

ڈاکٹر قبلہ ایازنے کہا: ’زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے بعد ہونے والے نکاح کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگرعدالت ہم سے رجوع کرے گی تو ہماری ریسرچ ٹیم اپنا موقف دے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان