نتن یاہو کا ایران پر حملہ: دفاع یا خود ساختہ مسیحا کا جنون؟

واشنگٹن کے اندر کئی امریکی حکومتوں  اوباما سے لے کر ٹرمپ، بائیڈن اور پھر ٹرمپ  تک یہ شک اور بے چینی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے کہ نتن یاہو امریکہ کو ایران پر حملے کے لیے ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

الٹرا آرتھوڈوکس یہودی مرد تل ابیب میں 14 جون 2025 کو ایران کی طرف سے فائر کیے گئے میزائل سے تباہ ایک سائٹ کو دیکھ رہے ہیں (جان ویسلز/ اے ایف پی)

ایران پر اسرائیل کے وسیع حملے کو دیکھنے کے دو الگ الگ زاویے ہیں، اور غالب امکان ہے کہ یہ معاملہ آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کرے گا۔

پہلا زاویہ یہ ہے کہ یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ: ’اسرائیل کو وہی کرنا پڑا جو کرنا ضروری تھا‘ تاکہ ایران کو فوجی جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔

وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو، جوش و خروش سے بھرپور انداز میں، اس کارروائی کو پیشگی حملہ قرار دیتے ہیں۔

اس وضاحت کے مطابق، 2024-2025 کے دوران ایران کی جغرافیائی و سیاسی حیثیت میں نمایاں کمزوری پیدا ہوئی — جس میں حزب اللہ (جو کہ ایران کا قیمتی علاقائی حلیف ہے) کو عسکری لحاظ سے کمزور کیا گیا، شام میں اسد حکومت کا زوال آیا، اور اکتوبر 2024 میں تہران کے فضائی دفاعی نظام پر کامیاب اسرائیلی حملے کیے گئے — اور ان تمام عوامل نے اسرائیل کے لیے ایک موقع پیدا کیا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو پیچھے دھکیل سکے۔

یقیناً، یہ نکتہ نظر اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے کہ ایران نے قابلِ ذکر پیش رفت کی، اپنی یورینیم افزودگی کی صلاحیتوں کو بہتر اور جدید بنایا، اور 60 فیصد افزودہ یورینیم کے 300 کلوگرام سے زائد کا ذخیرہ جمع کیا۔ (فوجی معیار کے لیے 90 فیصد افزودگی درکار ہوتی ہے، لیکن 60 سے 90 فیصد تک کا فاصلہ زیادہ طویل نہیں ہوتا۔)

یہ سب کچھ ڈونلڈ ٹرمپ کے 2018 میں کیے گئے اس فیصلے کا براہ راست نتیجہ تھا — جس میں انہوں نے، نتن یاہو کی شدید ترغیب پر، یکطرفہ طور پر 2015 کے جوہری معاہدے مشترکہ جامع منصوبہ عمل سے امریکہ کو نکال لیا تھا۔

نتن یاہو نے 2015 میں کہا تھا کہ ’اس سے بہتر معاہدہ‘ ممکن ہے — مگر خود کبھی ایسا کوئی معاہدہ پیش نہیں کیا۔

پھر 2018 میں انہوں نے ٹرمپ کو یہ سمجھایا کہ اگر ایران پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں لگائی جائیں تو وہ ایسی کسی ’بہتر ڈیل‘ پر آمادہ ہو جائے گا۔ مگر حقیقت میں اس کے برعکس ہوا۔

دوسری تشریح نتن یاہو کے ایران سے متعلق ایک غیر متوازن، نجات دہندہ جیسے نظریے اور سات اکتوبر 2023 کے بعد اپنے بارے میں بننے والے تصور سے جڑی ہے۔

ایران نہ صرف یہودی تہذیب کے لیے خطرہ ہے، بلکہ مغربی دنیا کے لیے بھی — اور یہی تصور نتن یاہو کو صرف اسرائیل کا محافظ نہیں بناتا، بلکہ سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد اُن کی ساکھ میں جو وقتی اضافہ ہوا (جو بعد میں غزہ میں اموات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا)، اُسے مغرب کا نجات دہندہ بھی بناتا ہے۔

نتن یاہو کا یقین ہے کہ تاریخ میں ان کا یہی کردار یاد رکھا جانا چاہیے۔

یہ حقیقت کہ انہوں نے ’ایرانی خطرے کو اسرائیلی رنگ دے دیا‘ آسانی سے نظرانداز کر دی جاتی ہے۔

انہوں نے بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا۔۔۔ اور جب اس تعاون کا نتیجہ ایک معاہدے کی صورت میں نکلا، تو وہ اس کے خلاف ہو گئے۔

کچھ لوگ، جیسے وہ خود، اسے ’چرچل جیسا‘ رویہ سمجھتے ہیں۔ جبکہ دوسروں کو اس میں ’نیرو قیصر‘ کی جھلک نظر آتی ہے۔

یہ طے کرنے میں کئی دن یا شاید ہفتے لگیں گے کہ اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کو کس حد تک نقصان پہنچایا یہ جنگ کتنی وسیع اور طویل ہوگی، اسی پر انحصار ہے۔

تاہم، وسیع تر منظرنامے کے کچھ پہلو اب بھی واضح ہو رہے ہیں۔

ایران کے سامنے آئندہ چند دنوں میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی متوقع اور ناگزیر جوابی کارروائی کی نوعیت اور دائرہ کار کس حد تک محدود رکھے: کیا وہ صرف ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ تک محدود رہے، یا اسے وسعت دے کر خلیج میں موجود امریکی اہداف کو بھی نشانہ بنائے۔

تہران امریکہ کو اس حملے میں شریک سمجھتا ہے، اگرچہ امریکہ نے اس کی تردید کی ہے اور اسے اسرائیل کی یکطرفہ کارروائی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ ایران اس بیانیے کو تسلیم کرے۔

تاہم، اگر ایران نے امریکہ کو نشانہ بنایا، تو اُسے امریکی فوجی ردعمل کا خطرہ مول لینا پڑے گا — اور یہ ردعمل ممکنہ طور پر سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات کی تیل کی تنصیبات پر حملے کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔

ایران کی طرف سے ایسا غیر منطقی فیصلہ کرنے کا امکان کم ہے، اور اسی وجہ سے پورے خطے میں جنگ کے پھیلنے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔

لیکن جنگ کی حرکیات (dynamics) ابھی تک طے نہیں ہوئیں، نہ ہی ان کی کوئی واضح حد بندی ہوئی ہے، اور ان کا بہت زیادہ انحصار تہران کی جنگ کے راستے کے بارے میں اپنی تشریحات اور اندازوں پر ہوگا۔

اگر ایران خود کو اس یقین میں قائل کر لیتا ہے کہ اس حملے کا اصل مقصد حکومت کی تبدیلی ہے، تو پھر تمام بظاہر ’عقلی فیصلے‘ بھی نظرثانی کے قابل ہو جائیں گے۔

مستقبل دنوں میں امریکہ کو بھی دوہری آزمائش کا سامنا ہو گا۔

اول، اسے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ وہ ایسی جنگ میں نہ الجھے جس میں امریکہ کا کوئی حقیقی مفاد نہیں — باوجود اس کے کہ ٹرمپ نے تہران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کو ’شاندار‘ قرار دیا اور خبردار کیا کہ ’ابھی مزید ہوں گے۔‘

ایسی جنگ میں امریکہ کو کوئی ٹھوس فائدہ حاصل نہیں ہو گا — بلکہ الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔

واشنگٹن کے اندر کئی امریکی حکومتوں  اوباما سے لے کر ٹرمپ، بائیڈن اور پھر ٹرمپ  تک یہ شک اور بے چینی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے کہ نتن یاہو امریکہ کو ایران پر حملے کے لیے ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ حالیہ حملہ ان خدشات کو کم کرنے میں بالکل ناکام رہا، اگرچہ ٹرمپ نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ انہیں اور ان کی ٹیم کو اسرائیل کے ایران پر حملے کے منصوبے کا علم تھا ۔

یہ دعویٰ صرف ایک دن بعد سامنے آیا جب انہوں نے عوامی طور پر اسرائیل کو حملے سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا۔

اس معاملے میں امریکہ کے کردار سے متعلق بہت سی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئیں، لیکن مقبوضہ بیت المقدس اور واشنگٹن کے درمیان بیانیوں کی جنگ پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔

اگرچہ ٹرمپ نے حملے کے منصوبے سے پہلے سے آگاہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے، مگر اطلاعات کے مطابق امریکہ اندرونی طور پر نتن یاہو کی ہٹ دھرمی اور امریکی مفادات کو سرد مہری سے نظر انداز کیے جانے پر ناخوش ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ وقتی طور پر خوش ہو سکتے ہیں کہ ایران پر توجہ مبذول ہونے سے لاس اینجلس سے توجہ ہٹی، لیکن نتن یاہو کی طرف سے ان کے مطالبات کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جانا انہیں ذلت آمیز بھی محسوس ہو سکتا ہے۔

یہ صورتحال صدر کی حیثیت کے لیے سازگار نہیں۔

یہی بات امریکہ کو درپیش دوسرے بڑے چیلنج کی طرف لے جاتی ہے: ایران کو اس حملے کے باوجود مذاکرات کی میز پر واپس لانے کے لیے قائل اور آمادہ کرنا، اور بالواسطہ طور پر یہ واضح کرنا کہ امریکہ کی ’حکومت کی تبدیلی‘ کی کوئی نیت نہیں ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ٹرمپ اس جنگ کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ایران پر دباؤ ڈال کر اسے مذاکرات پر مجبور کیا جا سکے — ورنہ وہ ایران کو ایک زیادہ تباہ کن اور طویل جنگ کی دھمکی دیں گے، جو اس کی پہلے سے کمزور معیشت اور تیل کی آمدنی کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہے۔

مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ایران تعاون کرے، اور فی الحال اس امکان کا سنجیدگی سے جائزہ لینا قبل از وقت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کوشش سعودی عرب کی جانب سے حمایت یافتہ ہوگی، جو ٹرمپ پر خاصا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ تاہم، جتنا یہ جنگ طویل، زیادہ تباہ کن اور اشتعال انگیز بنتی جائے گی، امریکہ کے لیے اپنے ان دو مقاصد کو حاصل کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا۔

جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے، وہ انہی بنیادی مسائل کا سامنا کرے گا جن کا اسے پہلے بھی سامنا تھا۔

نتن یاہو جتنا چاہیں اس بات پر فخر کرتے رہیں کہ انہوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا، مغرب کو بچا لیا، اور وہ ایران کے ہٹلر کے مقابلے میں ونسٹن چرچل ثابت ہوئے — لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے موجودہ اور مستقبل کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایران نہیں، بلکہ غزہ میں جاری صورت حال ہے۔

اسرائیل-فلسطین تنازعے کے بارے میں غفلت اور لاپرواہی پر مبنی انکار کو ایران کے جوہری پروگرام کو پیچھے دھکیل کر ختم نہیں کیا جا سکتا، چاہے یہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو۔

اور اس سے حقیقی بحران ختم نہیں ہوتا۔

الون پنکس سابق اسرائیلی قونصل جنرل برائے امریکہ، اور سابق وزرائے اعظم شمعون پیریز اور ایہود براک کے سیاسی مشیر ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر