اب ہمیں معلوم ہو گیا کہ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے کچھ سفارت خانوں کو اتنی عجلت میں جزوی طور پر کیوں خالی کروایا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ کیا ہونے والا ہے یعنی ایران کی ایٹمی صلاحیتوں اور اہم فوجی شخصیات پر اسرائیل کا ایک بڑا پیشگی حملہ۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی کو قتل کرنا، جو ایک فوجی ہی نہیں بلکہ سیاسی قوت بھی ہیں، ایک علامت اور مذہبی قیادت کے لیے انتباہ ہے کہ اگر اسرائیل چاہے تو اس پر کس حد تک تباہی لا سکتا ہے۔ یہ ایک علامت اور انتباہ امریکہ کے لیے بھی ہے، یا ہونا چاہیے کہ بن یامین نتن یاہو اپنے داخلی سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے الفاظ میں وہ ’یک طرفہ‘ کارروائی کریں گے۔
اگر اصطلاح مستعار لی جائے تو نتن یاہو ’اسرائیل پہلے‘ کا نعرہ لگانے والے سیاست دان ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی نافرمانی کی؟ اس حد تک نہیں کہ انہیں بالکل لاعلم رکھیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی صدر کو اتنی مہلت ضرور دی کہ امریکی سفارتی عملہ ایران یا اس کے اتحادیوں کی جانب سے متوقع جوابی کارروائی سے قبل علاقے سے نکل سکے۔
واشنگٹن کچھ بھی کہے، لوگ یہی شک کریں گے کہ صدر نہ صرف اسرائیلی حملوں سے باخبر تھے بلکہ ان کی منظوری دے کر ان میں مدد بھی کی۔ نتن یاہو کو یقیناً علم تھا کہ امریکی جانوں کو خطرہ ہو سکتا ہے، اسی لیے انہوں نے خبردار کیا اور آگے بڑھے۔
یہ بات بہت کم ممکن لگتی ہے کہ ٹرمپ نے اسرائیل کو اقدام کی ترغیب دی ہو اور غالباً وہ یہی چاہتے ہوں گے کہ نتن یاہو ایسا نہ کریں۔ ٹرمپ کی اسرائیل سے ہمدردی اور ایران سے ناراضی اس حد تک ضرور ہے کہ وہ ان حملوں کو روکنے کی کوشش نہ کریں، لیکن شاید انہیں اندازہ تھا کہ وہ کچھ بھی کہیں، نتن یاہو کسی نہ کسی شکل میں یہ کارروائی کر ہی ڈالیں گے۔
بہرحال اسرائیل اور ایران تقریباً نصف صدی سے، 1979 کے ایرانی انقلاب، شاہ ایران کے زوال اور اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد سے، وقفے وقفے سے بالواسطہ جنگ لڑتے آ رہے ہیں۔ اسرائیل میں حفاظتی آئرن ڈوم کی ایجاد نے صورت حال کو بدل دیا اور جب گذشتہ سال ایران کا بڑا میزائل اور ڈرون حملہ ناکام ہوا تو اس نظام کی افادیت ثابت ہو گئی اور خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہو گیا۔
تاہم اس ناکامی نے ایرانی قیادت کے ذہن میں یہ بات مزید پختہ کر دی کہ طاقت کا توازن بحال کرنے کے لیے انہیں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت ہے جب کہ اسرائیل کے خلاف نئی دفاعی صلاحیت بھی ملے گی۔
آخرکار، یہ عمومی خیال ہے کہ اسرائیل کے پاس بھی خفیہ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔
یوں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری رہنے والا تنازع اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ صورت حال امریکہ کے مفاد میں ہو گی یا نہیں۔ جب تک تہران میں حکومت تبدیل نہیں ہوتی، جو ممکن تو ہے لیکن یقینی نہیں، ایران اپنی کوششیں جاری رکھے گا، جن میں اس کے طاقتور اتحادی، روس اور شمالی کوریا، کسی نہ کسی حد تک اس کی مدد کریں گے۔
درحقیقت، شمالی کوریا اس بات کی واضح مثال ہے کہ نسبتاً ایک چھوٹا ملک بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ذریعے کیا کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ خود کو حملے اور حکومت کی تبدیلی سے محفوظ بنا سکتا ہے۔
یہی وہ صلاحیت تھی جو صدام حسین بروقت حاصل نہ کر سکے، جس کے نتیجے میں عراق پر حملہ ہوا اور انہیں ان کے جرائم کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی۔ (یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1981 میں عراق کے ایٹمی ری ایکٹر پر اسرائیل کے فضائی حملے نے صدام حسین کے ایٹمی طاقت کے حصول کے اقدام کو مؤثر طور پر روک دیا، جس کے بعد وہ کیمیائی ہتھیاروں، چاہے وہ حقیقی ہوں یا فرضی، پر انحصار کرنے لگے تاکہ اپنے دشمنوں کے دلوں میں خوف بٹھا سکے۔)
ایران اب اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر خطے میں ایٹمی برابری حاصل کرنے کی کوششیں دگنی کر دے گا۔ اسی طرح سعودی عرب بھی ایسا ہی کرے گا۔
یہ کہنا بجا ہے کہ یہ سب کچھ وہ نہیں جو ٹرمپ چاہتے تھے۔ انہیں کسی اور جنگ کی ضرورت نہیں جسے وہ کنٹرول کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں تیل کی قیمت میں اضافہ اور دنیا کو کساد بازاری کے قریب دھکیلنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اس بات کو کہیں زیادہ ترجیح دیتے کہ روم میں ایران کے ساتھ ان کے امن مذاکرات، خواہ جتنے بھی پریشان کن ہوں، ’ڈیل‘ کے لیے آگے بڑھتے۔ ڈیل ان کا ایک پسندیدہ لفظ ہے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔
اس کے برعکس، نتن یاہو نے ایک بار پھر ٹرمپ کے علاقائی منصوبوں میں مداخلت کی یعنی غزہ کی جنگ کے خاتمے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ نیا اتحاد قائم کرنے اور ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے منصوبوں میں مداخلت۔ نتن یاہو نے ٹرمپ کے ایران کے ساتھ ممکنہ معاہدے کو تباہ کر دیا اور انہیں ایسا دکھایا جیسے کہ وہ بے وقوف شخص ہوں۔
امریکہ کے صدر نے غزہ میں جس طرح ناقابل فہم انداز میں بی بی (نیتن یاہو) کو رعایتیں دیں، اسی طرح یہاں بھی ان کی بات مان لی۔
اپنی ڈینگوں، دھونس اور پیانگ یانگ (شمالی کوریا) جیسی فوجی پریڈ کی تمام تیاریوں کے باوجود، ٹرمپ اپنے مشکل دورِ صدارت کے اس تازہ واقعے کے بعد کمزور اور چھوٹے نظر آ رہے ہیں۔
وہ اب بھی دوست ممالک جیسے کہ کینیڈا کو دھمکانے میں تو ماہر ہیں اور ایسے طاقتور ممالک سے خود کو دور کرتے ہیں، جن کی انہیں واقعی ضرورت ہے، جیسے کہ چین۔
لیکن حیرت انگیز طور پر، وہ ان ’طاقتور رہنماؤں‘ کو لگام ڈالنے میں بے حد کمزور ثابت ہوتے ہیں جن سے وہ خود کو وابستہ محسوس کرتے ہیں۔ چاہے یہ رہنما انہیں ذلیل کریں یا امریکہ کے قومی مفادات کو نقصان پہنچائیں۔
وہ امن معاہدے جن کے بارے میں ٹرمپ نے ہمیں بتایا کہ وہ چند ہی دنوں میں ولادی میر پوتن، کم جونگ اُن اور بن یامین نتن یاہو کی مدد سے طے پا جائیں گے، آج پہلے سے کہیں زیادہ دور نظر آتے ہیں۔ خود ٹرمپ کو بھی (جیسا کہ وہ کبھی کبھار مانتے بھی ہیں) شاید یہ خیال آتا ہو کہ کہیں وہ ان چالاک، مفاد پرست اور موقع پرست دھوکہ بازوں کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہو گئے۔
بہرحال، جناب صدر اپنی سالگرہ کی پریڈ کا لطف اٹھائیں۔
© The Independent