کیا واقعی اے آئی سونگ، اوریجنل گیتوں سے زیادہ مشہور ہورہے ہیں؟ خاص کر ایسے میں جب ان گیتوں کو ماضی کے شہرہ آفاق گلوکاروں محمد رفیع، لتا منگیشکر یا پھر کشور کمار نے گنگنایا ہو۔
اس خیال کو ان دنوں اس لیے بھی تقویت مل رہی جب آنجہانی کشور کمار کی آرٹیفیشل انٹلیجنس (اے آئی) یعنی مصنوعی ذہانت کے ذریعے ان کی آواز میں فلم ’سیارہ‘ کا ٹائٹل سونگ ہر ایک کی زبان پر ہے۔
یہ بھی اپنی جگہ دلچسپی سے کم نہیں کہ کشور کمار کے اس آے آئی ورژن سونگ کو لاکھوں صارفین سن چکے ہیں۔ اس گانے کو امیتابھ بچن اور موسمی چٹرجی کی 1979میں نمائش پذیر ہونے والی فلم ’منزل‘ کے گانے ’رم جھم گرے ساون‘ پر استعمال کیا گیا۔
ابتدا میں ایسا ہی محسوس ہوگا کہ جیسے یہ گیت واقعی کشور کمار نے ہی گایا اور امیتابھ بچن اور موسمی چٹرجی پرہی فلمایا گیا۔ جسے دور حاضر کی میوزیکل رومنٹک ہٹ فلم ’سیارہ‘ میں کاپی کیا گیا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ’سیارہ‘ کے گانے کو کشور کمار کی اے آئی آواز کا روپ دینے والے آر جے کرشنا اور انشمان شرما ہیں۔ جنہوں نے کمال مہارت سے اس گانے کو پیش کیا ہے۔اس اے آئی ورژن کی مقبولیت کا اندازہ یوں لگایا کہ کئی ٹک ٹاکرز اور ڈانسرز نے اس پر اپنی ریلز اور ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کردیے ہیں اور یہ اے آئی سونگ، اوریجنل سونگ جسے فہیم عبداللہ نے گایا ہے اس سے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرگیا ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع اور پہلا گیت نہیں جسے اے آئی کا استعمال کرتے کسی پرانے گلوکار کی آواز میں پیش کیا گیا۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انڈیا میں اے آئی کے تحت گانے بنانے کا رحجان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پرانی اور سدا بہار آوازوں کی کلوننگ کی جارہی ہے۔ اب یقینی طور پر آپ بھی چونک اٹھتے ہوں گے جب دور حاضر کا کوئی مشہور گیت لتا یا کشور یا پھر رفیع کی آواز میں سنیں۔
بالی وڈ ہمیشہ سے موسیقی اور گانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور رہا ہے۔ لتا منگیشکر، کشور کمار، محمد رفیع، آشا بھونسلے، مکیش کے بعد اب تک اس سلسلے کو کئی گلوکار جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اعتراض بھی کیا جارہا ہے کہ اب منجھے ہوئے نغمہ نگاروں، موسیقاروں اور گلوکاروں کے نہ ہونے کی وجہ سے فلمی موسیقی زوال کی جانب رخ کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کسی پرانے مشہور گیت کو ری کمپوز یا آئٹم نمبر بنا کر فلموں میں شامل کیا جارہا ہے۔ ایسے میں اے آئی پر مبنی گیت، سدا بہار گانوں کو ایک نیا رخ دے رہے ہیں۔
اے آئی سونگ کیا ہیں؟
اے آئی سونگ وہ ہے جو انسان کے بجائے کمپیوٹر تخلیق کرتا ہے۔ پرانے گلوکاروں کی آوازیں کلون کر کے نئے گانے بنائے جاتے ہیں۔ یعنی مشہور گلوکاروں کی آواز کو کسی دوسرے گانے پر ڈب کیا جاتا ہے۔ مکمل طور پر کمپیوٹر کی مدد سے نیا کمپوزیشن اور لیرکس تیار ہوتا ہے۔
اب یہ ضروری نہیں کہ اس ٹیکنالوجی سے آپ پرانے گلوکاروں کے نئے گانے سنیں بلکہ ایسا بھی ہورہا ہے کہ کوئی نو آموز گلوکار، رفیع یا کشور کمار کا گیت بھی گا رہا ہے۔ اب یہ تمام تر تخلیقات سوشل میڈیا پر مقبول بھی ہورہی ہیں۔ اے آئی آوازوں کے لیے درجنوں اپلی کیشز ہیں جن کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ان میں کچھ بلامعاوضہ بھی ہیں۔
موسیقی کے دلدادہ افراد کے لیے یہ ایک عجیب لیکن دلچسپ تجربہ ہے۔ وہ اپنے پسندیدہ پرانے گلوکاروں کی آواز کو دوبارہ زندہ دیکھ کر خوش بھی ہیں اور حیران بھی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ موسیقی میں انقلاب ہے کیونکہ موسیقار اور نغمہ نگار کوئی بھی نیا گیت تخلیق کرکے اسے ماضی کے کسی بھی گلوکار سے نغمہ سرائی کرسکتے ہیں۔ ایسا بھی اب ممکن ہے کہ کوئی دو گانا رفیع صاحب اور شریا گھوشال کی آواز میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ کچھ کو لگتا ہے کہ یہ اصلی گلوکاروں اور موسیقاروں کی محنت کے ساتھ ناانصافی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ کئی انڈین گلوکاروں نے اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ ان گلوکاروں کو یہ خطرہ ہے کہ یہ رحجان تیزی سے مقبول ہوتا گیا تو کہیں ان کی اصل آواز کی مانگ کم نہ ہو جائے۔
اسی طرح کاپی رائٹ اور قانونی مسائل کے سوال بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔اس سلسلے میں گزشتہ سال گلوکار ارجیت سنگھ نے ممبئی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں ان کا موقف یہ تھا کہ ان کی آواز، نام اور شخضیت کا غیر مجاز اے آئی کا استعمال روکا جائے۔
رواں سال ہی عدالت نے تسلیم کیا کہ گلوکار کے نام آواز اور شخصیت پر اس کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔ عدالت نے تمام تر اے آئی پلیٹ فارمز کو فوری طور پر ارجیت سنگھ کی نقل شدہ یا مشکوک مواد ہٹانے کا بھی حکم دیا۔
دوسری جانب موسیقار اور گلوکار اے آر حمان نے مصنوعی ذہانت کے مسئلے کو سنگین قرار دیا ہے۔ ایک انٹرویو میں اے آر رحمان کا کہنا تھا کہ اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ لوگ اے آئی کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اگر وہ کسی بھی کمپوزر کے انداز کو اپنا بھی رہے ہیں تو اسے ادائیگی نہیں کرتے۔ اے آر رحمان نے اے آئی کو شیطانی قرار دیا تھا۔
لیکن یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایک اور موسیقار شنکر مہادیون نے موسیقی کے لیے اے آئی کو انقلابی گردانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسی اے آئی کی مدد سے ایک گیت بھی تخلیق کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا موسیقی کا وہ انسانی جذبہ اور احساس، جو کسی گلوکار کی آواز میں جھلکتا ہے، مشین بھی دے سکتی ہے؟ یا یہ سب کچھ صرف ایک ’ٹیکنالوجیکل جادو‘ ہے جو وقتی طور پر پرستاروں کو مسرور کر رہا ہے؟ سوال تو یہ بھی گردش کر رہا ہے کہ اے آئی گیت ، اصل گلوکاروں کی جگہ لے پائیں گے یا صرف ایک دلچسپ تجربہ بن کر ہی رہ جائیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔