سٹوڈیو میں کامیڈین محمود اور موسیقار راہول دیو برمن ایک ترتیب دی ہوئی دھن کو مزید بہتر بنانے کی جستجو میں تھے۔
اسی دوران گلوکارہ آشا بھوسلے بھی ہنستی مسکراتی پہنچ گئیں، جن کے ہاتھ میں نغمہ نگار مجروح سلطان پوری کا گیت تھما دیا گیا۔
1973 کا دور تھا جب محمود بطور پروڈیوسر ’دو پھول‘ بنانے میں سرگرم تھے جبکہ وہ اسی فلم میں ونود مہرہ کے ساتھ اداکاری بھی دکھا رہے تھے۔
فلم 1967میں نمائش پذیر ہونے والی تامل فلم کا ری میک تھی۔ آشا بھوسلے اور کشور کمار کی آواز میں گیت ریکارڈ ہونا تھا، جسے مکمل ہونے کے بعد پروڈیوسر محمود اس کی عکس بند ی کروانے کے لیے لوکیشن کا رخ کرتے۔
آر ڈی برمن نے فکر مند نظروں سے گھڑیال کو دیکھا اور پھر سٹوڈیو کے مرکزی دروازے کو، جیسے انہیں کسی کا انتظار ہو۔
محمود سے ان کی نگاہیں چار ہوئیں۔ جنہوں نے کلائی میں بندھی گھڑی پر وقت دیکھا اور پھر خاموش ہو گئے۔
ایسے ہی آدھا گھنٹہ اور گزر گیا۔ اب آشا بھوسلے نے پریشان ہو کر کہا کہ ’پنجم دا اگر کشور نہیں آ رہا تو معلوم تو کریں۔‘
آرڈی برمن کے بجائے محمود نے جواب دیا کہ وہ پتہ لگاتے ہیں کہ کشور کمار کہاں رہ گئے۔
محمود اس مقام تک گئے جہاں ٹیلی فون رکھا تھا۔ پہلے کشور کمار کے گھر فون کیا گیا تو وہ وہاں نہیں تھے۔
پھر مختلف سٹوڈیوز فون گھمانے کے بعد ایک جگہ آخر کار کشور کمار مل ہی گئے جنہوں نے وعدہ کیا کہ وہ 15 سے 20 منٹ میں پہنچ جائیں گے اور یہی بات کامیڈین محمود نے آر ڈی برمن اور آشا بھوسلے کے گوش گزار کر دی۔
تینوں کی مشکل یہ تھی کہ اس گانے کے لیے وہ سمجھتے تھے کہ کشور کمار ہی آئیڈل ہیں کیونکہ گانا چلبلا سا تھا اور جس کے بول اور دھن سننے کے بعد یہ فیصلہ ہوا تھا کہ گیت کشور کمار ہی گائیں گے۔
دراصل یہ گانا اوریجنل فلم کے گانے کی دھن پر جوں کا توں فلم میں شامل کیا گیا تھا۔
محمود دیکھ رہے تھے کہ آر ڈی برمن کے تیور بدل رہے تھے کیونکہ کشور کمار کا انتظار طویل ہوتا جا رہا تھا۔
اب یہ وہ وقت تھا جب کشور کمار اداکاری ہی نہیں گلوکاری میں بھی بے حد مصروف تھے۔ ہر فلم ساز کا اولین انتخاب کشور کمار ہی ہوتے۔
اورپھر 15 منٹ سے آدھا اور پھر ایک گھنٹہ بھی بیت گیا۔ آشا بھوسلے جانتی تھیں کہ محمود اور آر ڈی برمن کا بلڈ پریشر ہائی ہوتا جا رہا ہے۔
اسی لیے انہوں نے بات مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے ایک تجویز دی کہ کیوں نہ محمود ہی یہ گانا گا لیں اور چونکہ فلم میں ان پر ہی یہ گیت فلمایا جائے گا تو اور فطری رنگ آجائے گا۔
محمود کی یہ خوبی تھی کہ وہ اداکاری ہی نہیں گلوکاری میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ پروڈیوسر، ہدایت کار، گلوکار اور اداکار یعنی محمود ہمہ صفت فنکار کہلائے جاتے۔
آر ڈی برمن نے بھی آشا بھوسلے کی رائے سے اتفاق کیا، لیکن محمود تیار نہیں تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آشا بھوسلے کا کہنا تھا کہ لگ نہیں رہا کہ کشور کمار آئیں۔ اگر محمود کو آج کی شفٹ بچانی ہے تو خود گلوکاری بھی کرنی ہوگی اور محمود کوئی ایسے برے گلوکار بھی نہیں۔
کافی سوچ بچار کے بعد اب سرمایہ اور وقت بچانے کی غرض سے محمود رضا مند ہوگئے لیکن یہ طے ہوا کہ بعد میں جب کشور کمار کو وقت ملے گا تو یہ گیت انہی کی آواز میں ریکارڈ کرلیا جائے گا۔
محمود کھڑے ہوئے مائیک کے سامنے جب کہ پہلو میں آشا بھوسلے تھیں۔ اب دونوں نے گنگنانا شروع کردیا۔ گیت ’متھوکوڈی کاوڑی ہڈا‘ جس کے معنی ہیں ’کیا تم موتی کا شکار کرنے آؤ گے۔‘
گانا ریکارڈ ہو گیا اور ہوا بھی اس قدر اعلیٰ کہ آشا بھوسلے اور آرڈی برمن نے محمود پر زور دیا کہ وہ فلم میں اپنی ہی آواز میں شامل کریں۔
21 مارچ 1973 کو فلم ’دو پھول‘ سینیما گھروں کی زینت بنی تو اس نے بہترین کاروبار کیا جبکہ محمود بطور کامیڈین فلم فیئر ایوارڈز میں نامزد ہوئے لیکن ایوارڈ جیت نہ سکے۔
کشور کمار نے جب وہ گیت سنا تو وہ خود محمود کی گلوکاری کے پرستار ہوگئے بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ محمود سے بہتر وہ اس گیت کو گا ہی نہیں سکتے تھے۔
یہ گانا آج تک مقبول ہے اور وجہ اس کے بولوں کے ساتھ ساتھ محمود کی گلوکاری بھی قرار دی جاتی ہے۔
’دوپھول‘ وہ فلم ہے جس کی نمائش کے 20 سال بعد ایک پھر اس کا ری میک ’آنکھیں‘ کے نام سے بنا، جس میں گووندا، چنکی پانڈے اور راج ببر نمایاں تھے لیکن یہ گیت پھر سے نہیں بنایا گیا۔