ایک فلم جو دلیپ کمار کبھی مکمل نہیں کر پائے

دلیپ کمار نے متعدد فلموں کو اپنی اداکاری سے لازوال بنا دیا مگر وہ خود کوئی فلم ڈائریکٹ نہیں کر سکے، جس کا قلق انہیں آخر تک رہا۔ دلیپ کی پہلی برسی پر خصوصی تحریر۔

14  مارچ 2000 کو لی گئی تصویر میں دلیپ کمار ممبئی میں کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے کاعذات نامزدگی جمع کروا رہے ہیں۔ معروف اداکار کا ہدایت کار بننے کا خواب پورا نہ ہوسکا (اے ایف پی)

شہنشاہ جذبات دلیپ کمار نے زندگی میں بے شمار کامیابیاں اور کامرانیاں دیکھیں، کئی اعزازات نام کے ساتھ جگمگائے جو تمنا کی وہ پوری ہوئی لیکن ان کے دل میں بس ایک ہی خلش تھی کہ کسی طرح ان کا نام بطور ہدایت کار بھی پردے پر جھلملائے۔

گو 1961 میں نمائش پذیر ہونے والی فلم ’گنگا جمنا‘ کی فلم سازی کرتے ہوئے انہوں نے ہدایت کاری بھی کی تھی لیکن پردے پر ان کی جگہ نتن بوس کانام دیا گیا۔

مختلف فلموں میں کام کرتے ہوئے وہ ہدایت کاروں کو مشورہ دیتے رہتے تھے کہ کون سا منظر کس طرح عکس بند کرنا ہے اور کبھی کسی نے اسے اپنے کام میں مداخلت بھی تصور نہیں کیا۔

دلیپ کمار کے دل میں مچلنے والی ہدایت کار بننے کی اس تمنا نے انہیں خاصا بے قرار کر رکھا تھا۔ یہ 90 کی دہائی کی بات ہے جب دلیپ کمار ’سوداگر‘ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کی ٹھانی۔

کہانی تو ان کے ذہن میں برسوں سے تھی۔ جب بھی فرصت ملتی دلیپ صاحب اس کا سکرین پلے لکھنے بیٹھ جاتے۔ پروڈیوسر سدھاکر بوکاڈے کی ’عزت دار‘ میں کام کرتے ہوئے دلیپ صاحب نے یہ بات ان کے علم میں لائی تھی، اور سدھاکر نے سوچ لیا تھا کہ وہی اس فلم پر سرمایہ لگائیں گے اور ایسا ہوا بھی۔

جب سدھاکر بوکاڈے نے ایک دن دلیپ کمار کو یہ خوشخبری سنائی تو دلیپ کمار میں ایک نیا جوش اور ولولہ آ گیا۔ انہوں نے تیزی کے ساتھ فلم کے سکرپٹ پر کام کیا اور چند ہی مہینوں میں اسے مکمل کر لیا۔ فلم کا نام ’کالنگا‘ تجویز کیا گیا۔ اس میں دلیپ کمار ایک جج کالنگا کا کردار ادا کرنے جا رہے تھے۔

یہ ایک اصول پسند انسان کا کردار تھا، جس کے بدعنوان بیٹے والد کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کر کے اس کی زندگی کے خاتمے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ جب جج کے علم میں یہ بات آتی ہے تو وہ ایک خطرناک منصوبہ بناتا ہے اور یہیں سے کہانی ایک نیا موڑ کھاتی ہے۔

 پروڈیوسر سدھاکر بوکاڈے نے باقاعدہ تقریب کا اہتمام کر کے اپریل 1991 کو اعلان کیا کہ وہ بطور ہدایت کار دلیپ کمار کی پہلی فلم کو پروڈیوس کرنے جا رہے ہیں۔ فلمی حلقوں میں یہ خبر خاصی دلچسپی سے سنی گئی، اخباروں نے اس خبر کو نمایاں انداز میں شائع کیا۔

ہر کوئی بےتابی سے انتظار کرنے لگا کہ ’کالنگا‘ کس نوعیت کی ہو گی اور دلیپ کمار کی ڈائریکشن کا معیار کیا ہوگا۔ دلیپ کمار کو کیا معلوم تھا کہ زندگی کا ایک کٹھن اور دشوار دور ان کی راہ میں آنے والا ہے، جس کے ہر موڑ پر ان کے لیے نت نئے امتحان ہوں گے۔ اس آرزو کو پورا کرنے کے لیے ان کے دانتوں تلے پسینہ آنے والا ہے۔

 جرم اور انصاف کے گرد گھومتی اس فلم کے لیے سنی دیول کا انتخاب کیا گیا لیکن انہوں نے کمر کا بہانہ بنا کر معذرت کر لی۔ اب پریشانی یہ تھی کہ کس کو لیا جائے۔ امیتوج من ایک ابھرتے ہوئے اداکار تھے، انہیں فلم کا حصہ بنایا گیا۔ ’کالنگا‘ کے دیگر اداکاروں میں راج ببر، میناکشی ششادری، شلپا شرودکر، امجد خان اور راج کرن شامل تھے۔

دلیپ کمار نے موسیقی کے لیے کلیان جی آنند جی کو چنا، جنہوں نے آنند بخشی کے لکھے ہوئے بولوں پر گیت تخلیق کیے۔

دلیپ صاحب صرف ڈائریکشن ہی نہیں موسیقی پر بھی توجہ دے رہے تھے، یہی وجہ تھی کہ بیشتر گیتوں کی دھنوں میں ان کی پسند اور ناپسند کا خاص خیال رکھا گیا۔ کئی دھنوں کو دلیپ کمار نے تبدیل کرایا اور انہیں اور زیادہ مدھر اور رسیلی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

فلم ’کالنگا‘ اس اعتبار سے بھی منفرد تھی کہ اس میں پہلی بار امجد خان اور دلیپ کمار ایک ساتھ کام کر رہے تھے۔ فلم کی ڈائریکشن کے لیے دلیپ کمار نے دن و رات ایک کردیے۔ عالم یہ تھا کہ اس دوران انہیں تین بڑی فلموں کی پیش کش ہوئیں لیکن ’کالنگا‘ کی عکس بندی کے باعث انہوں نے معذرت کر لی۔ ان فلموں میں بی آر چوپڑہ کی ’باغبان‘ بھی شامل تھی، جس کا ابتدائی پیپر ورک 1992 میں شروع ہوا تھا۔

اس کے علاوہ ایک فلم ان کے پسندیدہ ہدایت کار سبھاش گھئی کی بھی تھی۔ دلیپ کمار چاہتے تھے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ صرف اور صرف ’کالنگا‘ پر مرکوز رکھیں تاکہ یہ ان کی زندگی کا ایک شاہکار بن جائے۔ پروڈیوسر سدھاکر بوکاڈے جنہوں نے دلیپ کمار کی ڈائریکشن دیکھی تھی، وہ فلمی محفلوں میں برملا یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ دلیپ صاحب نے تو ’کالنگا‘ میں واقعی کمال کر دکھایا ہے۔

بہرحال جس تیزی کے ساتھ فلم کا آغاز ہوا تھا، اسی طرح دھیرے دھیرے یہ تعطل کا بھی شکار ہونے لگی۔ ’کالنگا‘ کے اداکار راج ببر اداکاری کے ساتھ سیاست میں مصروف ہوئے۔ وہیں ہیروئن میناکشی ششادری کی مقبولیت بڑھی تو انہوں نے ’کالنگا‘ کو ذرا کم اہمیت دینی شروع کر دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب کئی اداکاروں کو دلیپ کمار سے یہ بھی شکوہ رہا کہ وہ ایک ایک منظر کو عکس بند کرانے میں کئی گھنٹے لے لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی دیگر فلموں کے طے شدہ اوقات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ اب انہیں کون بتاتا کہ دلیپ کمار ایک ایک منظر میں 100 فیصد ’پرفیکشن‘چاہتے ہیں۔

اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ فلم کے ایک منظر کے لیے انہیں پرندوں اور گدھوں کو عکس بند کرنا تھا اور اس اکلوتے منظر کے لیے وہ اور ان کی ٹیم نے کئی شہروں کا سفر کیا۔

دوسری جانب بھارتی پولیس کو پروڈیوسر سدھاکر بوکاڈیا ایک مقدمے میں مطلوب ہوئے تو پروڈیوسر کا زیادہ تر وقت فلمی سیٹ کے بجائے عدالتوں اور تھانوں میں کٹنے لگا۔

ادھر دلیپ کمار کے لیے یہ خبر پریشان کن ثابت ہوئی کہ ان کی فلم کے مرکزی اداکار راج کرن اچانک لاپتہ ہو گئے۔ فلم ٹھپ ہو گئی۔ دلیپ کمار نے راج کرن کی تلاش کے لیے اپنے تمام تر تعلقات استعمال کیے لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

یہی وجہ ہے کہ راج کرن کا کام ادھورا رہ گیا۔ یہ اور بات ہے کہ کئی برسوں بعد راج کرن امریکہ کے ہسپتال کے بستر پر پائے گئے۔ ان کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔

اسی طرح امجد خان عکس بندی کے دوران ہی 27 جولائی 1992 کو چل بسے اور ان کا کام بھی نامکمل رہ گیا۔

پروڈیوسر سدھاکر بوکاڈے کو دلیپ کمار پر اعتماد تو تھا لیکن مسلسل تاخیر نے جیسے ان کی دلچسپی بھی اس ’کالنگا‘ سے کم کر دی تھی۔ فلم کا بجٹ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ سائرہ بانو چونکہ معاون پروڈیوسر تھیں، اسی لیے دلیپ کمار کو تھوڑا بہت سرمایہ ملتا رہا۔ اداکاروں کی جب بھی تاریخیں ملتیں، دلیپ کمار فلم کی عکس بندی کراتے رہتے۔

1999 کے آتے آتے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ جو کام انہوں نے ماضی میں ’گنگا جمنا‘ کے ذریعے آسانی کے ساتھ کیا، اب ایسا ہونا ناممکن ہے۔ تلخ اور ناخوشگوار تجربات کا ایسا سامنا ہو رہا تھا، جو دلیپ کمار نے تصور بھی نہیں کیے تھے۔

 بڑھتی ہوئی عمر، ناساز طبیعت اور اداکاروں کے ناز نخروں نے بھی دلیپ کمار کو خاصا دل برداشتہ کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب ’کالنگا‘ کی عکس بندی 80 فیصد مکمل ہونے کے باوجود غیر اعلانیہ طور پر بند کرنا پڑ گئی۔

دلیپ کمار کو اس بات کا ملال آخر تک رہا کہ جو فلم ان کے دل کے انتہائی قریب تھی، جس کے ذریعے بطور ہدایت کار بھی اپنا نام روشن کرنے کا سوچا تھا، وہ پردہ سیمیں کی زینت نہ بن سکی۔

دلیپ کمار کے اس فلمی منصوبے کی پروجیکٹ پروڈیوسر سنگیتا آہیر نے گذشتہ برس ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ’کالنگا‘ کی اب تک کی ریکارڈنگ کو ڈیجٹیلائز کرا کے وہ چاہتی ہیں کہ دلیپ کمار کے اس ڈریم پروجیکٹ کو ان کے چاہنے والوں تک پہنچائیں۔

سنگیتا یہاں تک دعویٰ کرتی ہیں کہ امجد خان نے ’شعلے‘ کے بعد اپنی زندگی کا بہترین کردار ’کالنگا‘ میں ادا کیا اور اس بات کا سہرا دلیپ کمار کے سر جاتا ہے، جنہوں نے امجد خان ہی نہیں دیگر اداکاروں سے بھی ان کی زندگی کی بے مثال اداکاری کرائی۔

’کالنگا‘ تو ڈبوں میں قید ہو گئی لیکن اس کے بعد دلیپ کمار نے جس آخری فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے وہ 1998 میں پیش ہونے والی فلم ’قلعہ‘ تھی۔ افسوس کہ یہ فلم بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی اور دلیپ کمار نے فلمی دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم