نیپال کے نوجوان پرتشدد ہنگاموں کے بعد سڑکوں کی صفائی میں مصروف

آن لائن ویڈیوز میں نوجوان رضاکاروں کو کھٹمنڈو میں فٹ پاتھوں کی صفائی، عوامی مقامات سے کچرا اٹھاتے اور دیواروں پر رنگ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

نیپال کے نوجوان 10 ستمبر، 2025 کو دارالحکومت کٹھمنڈو میں محکمہ ٹرانسپورٹ کی عمارت کی صفائی کرنے میں مصروف ہیں (پربن رانا بھٹ / اے ایف پی)

نیپال میں نوجوان مظاہرین، جنہوں نے اس ہفتے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا، اب دارالحکومت کھٹمنڈو کی سڑکوں کی صفائی میں مصروف ہیں۔

گذشتہ کئی دنوں کی پرتشدد ہنگامہ آرائی کے بعد دارالحکومت ملبے سے اٹ گیا ہے۔

جھاڑو، تھیلے اور کوڑے دان اٹھائے ہوئے یہ مظاہرین، جن میں زیادہ تر جنریشن زی کے لوگ شامل ہیں، شہر کی فٹ پاتھوں کو صاف، ملبہ اٹھاتے اور سرکاری عمارتوں کے قریب ان دیواروں پر نیا رنگ کرتے دیکھے گئے جنہیں احتجاج کے دوران آگ لگا دی گئی تھی۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں نوجوان رضاکاروں کو ٹوٹی ہوئی ٹائلیں درست کرتے اور عوامی مقامات سے کچرا صاف کرتے دکھایا گیا۔

یہ بھی دیکھا گیا کہ وہ کچھ شرپسندوں کی طرف سے لوٹے گئے فریج، مائیکروویو اور پنکھے واپس لائے جا رہے ہیں۔

نیپال کی حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگا دی تھی، جس کے بعد گذشتہ دنوں ملک گیر احتجاج کیا گیا۔

مظاہروں کے دوران 34 لوگ جان سے گئے اور 1368 زخمی ہوئے۔ ملک میں بدعنوانی اور بےروزگاری شدید غصے کا سبب بنی۔

احتجاجی مظاہرے اس وقت پرتشدد ہو گئے جب سکیورٹی فورسز نے براہ راست گولیاں، آنسو گیس اور لاٹھیاں استعمال کیں جب کہ مظاہرین نے رکاوٹیں ہٹا دیں، دکانیں لوٹ لیں اور سرکاری و نجی دفاتر اور سیاست دانوں کے گھروں کو آگ لگا دی۔

مظاہرین نے نیپالی حکومت کے مرکز سنگھا دربار کو بھی جلا دیا اور ہوائی اڈوں اور ایک ٹی وی نیوز چینل کی عمارت کو نقصان پہنچایا۔

وزیر اعظم اور ان کے چار وزرا نے منگل کو استعفیٰ دے دیا جبکہ فوج نے دارالحکومت کا کنٹرول سنبھال کر ملک گیر کرفیو نافذ کر دیا۔

فوج نے بدھ کو چند گھنٹے کے لیے کرفیو میں نرمی کی تاکہ لوگ ضروری سامان خرید سکیں۔

سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ نیپال کے نوجوانوں کا ایک گروہ جلائی گئی سرکاری عمارت کے باہر ٹوٹی ہوئی ٹائلیں درست کر رہا ہے جب کہ دوسرے نوجوان گڑھے بھر رہے ہیں اور کچرا اٹھا رہے ہیں۔

منتظمین نے کہا کہ صفائی مہم کا مقصد شہری ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا اور یہ پیغام دینا ہے کہ ان کی تحریک احتجاج کے ساتھ ساتھ تعمیر نو کے لیے بھی ہے۔

اسی طرح کے مناظر گذشتہ سال بنگلہ دیش میں بھی دیکھے گئے تھے، جب احتجاج کے بعد طویل عرصے سے برسر اقتدار وزیر اعظم شیخ حسینہ نے عہدہ چھوڑ دیا تھا۔

طلبہ کی قیادت میں شروع ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں کا آغاز سرکاری ملازمتوں میں کوٹے نظام ختم کرنے کے مطالبے سے ہوا جس کے بارے میں مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ حسینہ کے حامیوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جلد ہی احتجاج کا یہ سلسلہ وزیر اعظم اور ان کی عوامی لیگ کی حکومت کے خلاف بغاوت میں تبدیل ہو گیا۔

نیپال میں احتجاج کے دوران مارے جانے والوں کے اہل خانہ جمعرات کو دارالحکومت کھٹمنڈو میں اکٹھے ہوئے اور ہسپتال کی مردہ خانہ کے باہر شمعیں روشن کیں۔

وہ اپنے پیاروں کے لیے ریاستی اعزاز اور انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔

 شمعیں روشن کرنے والوں میں شامل کمل سوبیدی نے کہا کہ ’ہمیں اپنے ان خاندان والوں کے لیے انصاف کی جنگ لڑنی ہے جنہیں قتل کیا گیا، اور ہم اب مزید خاموش نہیں رہ سکتے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کا بھتیجا مارا گیا۔ ’ہم نے اپنے پیارے کھو دیے لیکن سیاست کو ہی ترجیح دی جا رہی ہے۔

’کوئی ہمارے پاس تک نہیں آیا، اس لیے اب ہم انصاف کے لیے لڑیں گے تاکہ انہیں وہ عزت ملے جس کے وہ حقدار ہیں۔‘

کچھ خاندان اب بھی اپنے پیاروں کی لاشوں کی تلاش میں ہیں۔ بھول بہادر بشووکرما اپنے بھائی سنتوش بشووکرما کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے جو مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ میں جان سے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سنا ہے کہ لاش یہاں ہسپتال کے مردہ خانے میں موجود ہے لیکن کسی نے اس کی تصدیق نہیں کی اور نہ یہ بتایا کہ لاش کس حالت میں ہے۔

’ہم تو لاش دیکھ بھی نہیں سکے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ہماری تشویش کا فوری طور پر ازالہ کرے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا