پنجاب میں تباہ کن سیلاب سے برصغیر میں غذائی بحران کا خدشہ؟

حکام کے مطابق اس بار پاکستانی اور انڈین پنجاب میں فصلوں کو پہنچنے والا نقصان اپنی نوعیت کا سب سے بڑا ہے جس سے غذائی پیداوار میں کمی اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

12 ستمبر 2025 کو پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل علی پور میں ہیڈ پنجند کے اوور فلو ہونے کے بعد نشیبی علاقے سیلابی پانی میں ڈوب گئے (اے ایف پی)

پاکستانی اور انڈین پنجاب میں شدید مون سون بارشوں اور سیلاب نے ہزاروں دیہاتوں، وہاں موجود مویشیوں اور کھیتوں کو تباہ کر دیا ہے، جس کے اثرات سرحد کے دونوں جانب غذائی بحران کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔

سرحد کے دونوں جانب کھیت پانی سے بھرے ہوئے ہیں اور دھان کی فصل پیلی اور مرجھائی ہوئی ہے۔ یہاں کی فضا میں گلتی سڑتی فصلوں اور مویشیوں کی لاشوں کی بدبو پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ریکارڈ بارشوں اور تباہ کن سیلاب کا نتیجہ ہے جس نے انڈیا اور پاکستان کی ’فوڈ باسکٹ‘ یا غذائی ٹوکری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

حکام کے مطابق اس بار پنجاب میں فصلوں کو پہنچنے والا نقصان اپنی نوعیت کا سب سے بڑا ہے جس سے غذائی پیداوار میں کمی اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق رواں برس اچانک آنے والے سیلابوں سے اب تک 950 سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں۔ سیلاب نے پنجاب کے مختلف حصوں میں کھیت، مویشی اور گھر تباہ کر دیے اور اب یہ سندھ سے گزر رہا ہے، جس سے غذائی اجناس مہنگی ہونے اور مالی وسائل کی کمی کا شکار اس جنوبی ایشیائی ملک میں مزید مشکلات کا خطرہ ہے۔

پاکستان اس وقت سیلاب سے بری طرح متاثر ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 24 فیصد زراعت سے جڑا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی برآمدات ٹیکسٹائل ہے، جس کی مالیت تقریباً 18 ارب ڈالر ہے۔ یہ کل برآمدات کا تقریباً 60 فیصد ہے اور اس کا سب سے زیادہ انحصار کپاس کی پیداوار پر ہوتا ہے۔

عارف حبیب لمیٹڈ کے مطابق سیلاب کی وجہ سے کپاس کا نقصان 30 فیصد سے بڑھ چکا ہے۔

پاکستان تقریباً 3 ارب 30 کروڑ ڈالرز کے چاول برآمد کرتا ہے۔ 60 فیصد سے زائد چاول کی فصل سیلاب میں بہہ گئی ہے۔ کسان کے لیے گنا کپاس کے بعد دوسری بڑی کیش کی فصل ہے اور سیلاب کے نتیجے میں گنے کی فصل کا تقریباً 35 فیصد نقصان بتایا جا رہا ہے۔ زرعی شعبہ ملک میں تقریباً 45 فیصد روزگار کا ذمہ دار بھی ہے۔

انڈین وزیر زراعت نے ریاست کے دورے کے دوران کہا کہ ’پنجاب میں فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں جبکہ ریاست کے وزیر اعلیٰ نے اس سیلاب کو ’کئی دہائیوں کی بدترین آفت‘ قرار دیا۔

امرتسر کے قریب گاؤں کے رہائشی 70  سالہ بلکار سنگھ نے کہا: ’ایسا تباہ کن سیلاب ہم نے آخری بار 1988 میں دیکھا تھا۔‘

ان کے مطابق پانی نے کھیتوں کو دلدل بنا دیا ہے اور ان کے مکان کی دیواروں میں خطرناک دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

جون سے ستمبر کے دوران برصغیر پاک و ہند میں مون سون کے موسم میں اکثر سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ دیکھنے میں آتی ہے مگر ماہرین کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی اور غیر منصوبہ بند ترقی نے ان آفات کی شدت اور اثرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

انڈین محکمہ موسمیات کے مطابق صرف اگست میں پنجاب میں اوسط سے تقریباً دو تہائی زیادہ بارش ریکارڈ ہوئی جس سے کم از کم 52 افراد ہلاک اور چار لاکھ سے زائد متاثر ہوئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست کے لیے 18 کروڑ  ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔

پاکستانی سرحد کے قریب راوی دریا کے بیچ میں آباد گاؤں ’طور‘ کھنڈر میں بدل چکا ہے۔ یہاں کھڑی فصلیں گر چکی ہیں، مویشیوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں اور گھر تباہ ہو گئے ہیں۔

کھیتوں میں کام کرنے والے سرجن لال نے بتایا: ’پانی 26 اگست کی آدھی رات کے بعد آیا۔ چند منٹوں میں ہی یہ دس فٹ تک بلند ہو گیا۔‘ ان کے مطابق ضلع گُرداس پور کا یہ گاؤں تقریباً ایک ہفتے تک پانی میں ڈوبا رہا۔

’ان کے بقول: ’ہم سب چھتوں پر تھے، کچھ نہیں کر سکتے تھے، پانی نے ہمارے جانوروں اور بستروں سمیت سب کچھ بہا دیا۔‘

سرحدی گاؤں لاسیا میں کسان راکیش کمار نے اپنی بربادی کی داستان سناتے ہوئے بتایا: ’میں نے اپنی زمین کے ساتھ کچھ اور بھی لیز پر لی تھی لیکن سب سرمایہ برباد ہو گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ بھی حالات بہتر دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ شاید وقت پر گندم کی بوائی نہ ہو سکے۔ ’پہلے یہ سارا کیچڑ سوکھے گا پھر بھاری مشینیں آ کر مٹی ہٹائیں گی، تب جا کے کھیت تیار ہوں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ بڑے مشینری آلات اس علاقے میں لانا بھی آسان نہیں کیونکہ خشکی کے دنوں میں عارضی پل (پونٹون برج) ہی رابطے کا ذریعہ ہوتا ہے۔

پنجاب انڈیا کے فوڈ سکیورٹی پروگرام کا سب سے بڑا سپلائر ہے جو 80 کروڑ سے زائد انڈیز کو سبسڈائزڈ گندم اور چاول فراہم کرتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ ملک کے اندرونی ذخائر اس وقت بڑے ہیں اس لیے قلت کا خطرہ نہیں، مگر باسمتی چاول کی برآمدات بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔

انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اویناش کشور نے کہا: ’اصل اثر باسمتی چاول کی پیداوار، قیمتوں اور برآمدات پر پڑے گا کیونکہ انڈیا اور پاکستان پنجاب دونوں میں پیداوار کم ہوگی۔‘

امریکہ کی جانب سے سخت ٹیرف پہلے ہی انڈٰیای باسمتی چاول کو غیر مسابقتی بنا چکے ہیں، اب یہ سیلاب صورت حال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔

کسان بلکار سنگھ نے کہا: ’میرے کھیت میں اب بھی پانی گھٹنوں تک ہے۔ ہمیں نہیں معلوم ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا