سیلاب 2025 کی تباہ کاریاں: کیا پاکستان واقعی 30 سال پیچھے چلا گیا ہے؟

وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق سیلاب 2025 کی تباہ کاریوں سے ملک 30 سال پیچھے چلا گیا ہے۔ لیکن کیا حقیقت میں پاکستان معاشی طور پر 30 سال پیچھے چلا گیا ہے یا نہیں؟

ایک دیہاتی 4 ستمبر 2025 کو ملتان کے نواح میں دریائے ستلج کے کنارے چارپائی پر بیٹھے سیلابی پانی کو دیکھ رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان اس وقت سیلاب سے بری طرح متاثر ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 24 فیصد زراعت سے جڑا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی برآمدات ٹیکسٹائل ہے، جس کی مالیت تقریباً 18 ارب ڈالر ہے۔ یہ کل برآمدات کا تقریباً 60 فیصد ہے اور اس کا سب سے زیادہ انحصار کپاس کی پیداوار پر ہوتا ہے۔

عارف حبیب لمیٹڈ کے مطابق سیلاب کی وجہ سے کپاس کا نقصان 30 فیصد سے بڑھ چکا ہے۔

پاکستان تقریباً 3 ارب 30 کروڑ ڈالرز کے چاول برآمد کرتا ہے۔ 60 فیصد سے زائد چاول کی فصل سیلاب میں بہہ گئی ہے۔ کسان کے لیے گنا کپاس کے بعد دوسری بڑی کیش کی فصل ہے اور سیلاب کے نتیجے میں گنے کی فصل کا تقریباً 35 فیصد نقصان بتایا جا رہا ہے۔ زرعی شعبہ ملک میں تقریباً 45 فیصد روزگار کا ذمہ دار بھی ہے۔

ان حالات میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ سیلاب 2025 کی تباہ کاریوں سے ملک 30 سال پیچھے چلا گیا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سال 2022 کے سیلاب سے ہونے والا زرعی نقصان تقریباً 9.28 ارب ڈالر تھا جبکہ ابھی تک سیلاب 2025 سے ہونے والا زرعی نقصان تقریباً ایک ارب ڈالر بتایا جا رہا ہے۔ کیا حقیقت میں پاکستان معاشی طور پر 30 سال پیچھے چلا گیا ہے یا نہیں؟

رائس ملز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین فیصل جہانگیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے سیاست دانوں اور دیگر اداروں کو اعداد و شمار دینے سے پہلے سٹیک ہولڈرز سے بات کرنی چاہیے۔ ہماری ایسوسی ایشن میں کسان بھی ہیں اور ایکسپورٹرز بھی ہیں۔ سب ایک فیملی کی طرح ہیں۔

’اگر ایک بھائی کو مالی نقصان ہو گا تو سب سے پہلے فیملی ممبرز کو پتہ چلے گا نہ کہ سرکار کو۔ ہمارے مطابق ابھی تک چاول کی فصل کو ہونے والا نقصان شاید 10 سے 15 فیصد ہے۔ روئٹرز بھی یہی کہہ رہا ہے۔ عارف حبیب کے اعداد و شمار بلکل بھی درست نہیں ہیں۔

’اعداد و شمار دینے میں بے احتیاطی سے ہمارے بین الاقوامی کسٹمرز پریشان ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ 60 فیصد تباہی کی غلط خبر دیں گے تو انٹرنیشنل کسٹمر انڈیا چلا جائے گا۔‘

فیصل جہانگیر کہتے ہیں کہ ’پنجاب ٹوٹل چاول کا 40 فیصد پیدا کرتا ہے۔ اگر پورے پنجاب کا چاول بھی بہہ جائے تو نقصان 40 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ پنجاب کے سیلاب کی بنیاد پر 60 فیصد کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’10 فیصد نقصان کے باوجود بھی اس سال چاول کی فصل پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہو گی کیونکہ اس سال ہماری کوشش سے چاول کاشت کا رقبہ 12.3 ملین ایکڑ تک بڑھ گیا ہے۔ پچھلے سال 11.8 ملین ایکڑ رقبے پر چاول کاشت ہوا تھا۔

’پچھلے سال چاول کی پیداوار تقریباً 9.7 ملین ٹن تھی جبکہ اس سال 12 ملین ٹن سے زیادہ پیداوار متوقع تھی۔ اگر سیلاب کی وجہ سے کمی آئی بھی تو پیداوار پچھلے سال سے زیادہ ہی ہو گی۔ 30 سال پیچھے جانے اور 60 فیصد نقصان کی باتیں بے بنیاد ہیں۔‘

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (ایپٹما) کے چیئرمین کامران ارشد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سینٹرل پنجاب میں سیلاب آیا ہے اور یہ پانی اب جنوبی پنجاب اور پھر اپر سندھ کی طرف جا رہا ہے۔ سینٹرل پنجاب میں کپاس کی کٹائی تقریباً مکمل ہو چکی ہے، یہاں زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں کپاس کی فصل تیار کھڑی ہے۔

’اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ان علاقوں میں سیلاب کہاں تک جاتا ہے۔ اگر یہی شدت رہی تو کپاس کا نقصان 30 فیصد سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں کپاس کی مقامی اوسط پروڈکشن تقریباً 55 لاکھ بیلز ہے۔ 30 فیصد کے حساب سے تقریباً 16 لاکھ بیلز کا نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ رقم تقریباً 40 کروڑ ڈالرز بنتی ہے۔ ایک نقصان کسان کا ہو گا اور دوسرا دباؤ کرنٹ اکاؤنٹ پر پڑے گا۔ پہلے ہی پاکستان تقریباً 25 لاکھ بیلز درآمد کرتا ہے۔

’مزید 16 لاکھ بیلز درآمد کرنے سے ڈالرز ذخائر پر دباؤ پڑے گا اور اگر آج آرڈر بک کروائیں تو ڈیلیوری ٹائم تین ماہ کا ہے۔ ایکسپورٹ آرڈرز متاثر ہو سکتے ہیں۔ تین طرف سے نقصان ہو گا۔ کسان میں غربت بڑھے گی، درآمدات کے لیے ڈالرز پر دباؤ آئے گا اور برآمدات کم ہونے سے بھی ڈالرز ذخائر کم ہوں گے۔

وہ مزید کہتے ہی ںکہ ’اصل نقصان کتنا ہو گا اس کا درست اندازہ چند ماہ تک لگایا جا سکے گا۔ احسن اقبال صاحب نے کس بنیاد پر اتنا بڑا دعویٰ کر دیا ہے، یہ وہی بتا سکتے ہیں لیکن میرے مطابق 30 سال پیچھے جانے کا دعویٰ درست نہیں ہے۔‘

اسی طرح کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکر ’نقصان تو بہت زیادہ ہوا ہے۔ صرف کپاس، چاول اور گنے کا نقصان نہیں ہوا بلکہ چارا، سبزیاں اور فش فارمنگ کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔‘

خالد کھوکر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ پنجاب کے مطابق سبزیوں کا 25 فیصد، کاٹن 1.7 فیصد، گنا 5 فیصد، چاول 10 فیصد، مکئی 6.4 فیصد، تل 5.4 فیصد اور گھاس 7.2 فیصد تک متاثر ہوئے ہیں۔ فش فارمرز کا تقریباً 50 ہزار ایکڑ کا نقصان ہوا ہے۔

’اگر 30 سال والی بات درست بھی مان لی جائے تو بھی یہ نقصان ایک سال میں پورا کیا جا سکتا ہے۔ سال 2022 میں سیلاب کی شدت اور نقصان آج سے زیادہ تھا لیکن مشترکہ کوششوں سے نقصان کا ازالہ ممکن ہو سکا تھا۔ لیکن اس مرتبہ عجب صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ماضی میں سیلاب کے بعد مخیر حضرات بڑھ چڑھ کر بحالی کے کاموں میں حصہ لیتے تھے لیکن اس مرتبہ وہ جذبہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ شاید حکومت اور سیاست دانوں پر عدم اعتماد ہے۔ فیصل ایدھی نے بھی سیلاب زندگان کی امداد کے لیے عوامی ردعمل کو مایوس کن قرار دیا ہے۔‘

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے جزل سیکرٹری عمران احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نقصان تو ہوا ہے لیکن اس وقت نقصان کا درست اندازہ لگانا ناممکن ہے۔

’عارف حبیب لمیٹڈ کے مطابق گنے کی فصل کو 35 فیصد نقصان ہوا ہے جبکہ پنجاب حکومت 5 فیصد بتا رہی ہے۔ یہ فرق بہت زیادہ ہے۔ صحیح اعداد و شمار آنے میں وقت لگے گا۔‘

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ