اکشے کمار نے پانچ کروڑ دیے اور جب کسی نے کہا کہ ’یہ آپ کا احسان ہے،‘ تو اکشے کے چہرے کا رنگ دیکھنے والا تھا۔ جیسے اسے زمین جگہ دے تو شرمندگی سے وہی مٹی میں اتر جائے۔ فوراً جواب دیا، ’یہ احسان نہیں، سیوا ہے۔‘
آپ بتائیں کوئی پاکستانی فنکار ایسا خوبصورت جواب دے سکتا ہے؟
ہمارے معاشرے کی اٹھان میں ’دھرتی ماں‘ شیرہ شامل ہی نہیں۔ ہم خود سے، اپنے آس پاس کے لوگوں سے اور اپنی مٹی سے وہ جذباتی تعلق محسوس ہی نہیں کر سکتے، جو انڈین پنجاب کے فنکار کرتے ہیں۔
سیلاب نے سرحد کے دونوں طرف لاکھوں افراد کو کھلے آسمان کی چھت تلے لا بٹھایا۔ ہزاروں خاندان سروائیول موڈ میں چلے گئے۔ حدیقہ کیانی اور ایک آدھ فنکار کے سوا شاید ہی کوئی پاکستانی فنکار اجڑے لوگوں میں نظر آیا ہو۔
زیادہ سے زیادہ انسٹاگرام پر pray for flood victims والی سٹوری لگا دی یا اسے عذاب خداوندی کہہ کر تبلیغ کر دی۔
کم از کم تین چار مشہور اداکاروں کے بیانات تو نظر سے گزرے جنہوں نے اسے برے اعمال کا نتیجہ کہا ہوا تھا۔ اس کا مطلب ہوا کہ جس نے عذاب نازل کیا وہی ٹالے گا، ہم کیا کریں۔
دلجیت دوسانجھ اس وقت دنیا کے مشہور ترین فنکاروں میں سے ایک ہیں۔ اگر ان کی شہرت کو بھاپ بنا کر چھوڑا جائے تو کم از کم ہمارے خطے میں کئی دن تک سورج نظر نہ آئے۔
یہاں ہمارے تمام اداکاروں پلس گلوکاروں کی شہرت اکٹھی کر کے اس سے بھاپ تیار کی جائے تو اتنی بھی نہ بنے گی کہ موسمی زکام میں سر سے تولیہ لپیٹ کر ماتھے کو گرم اور سانس کی نالیوں کو صاف کر لیا جائے۔
دلجیت دوسانجھ نے پنجاب کے 10 گاؤں اپنے ذمے لیے جہاں ان کی ٹیم کھانے پینے اور ضروری دوا دارو کا بندوبست کر رہی ہے۔ وہ خود لوگوں کے درمیان موجود ہیں۔
امی ورک نے اعلان کیا کہ دو سو خاندانوں کی مکمل بحالی جلد سے جلد ممکن بنانے کی کوشش کرے گا۔ امی کے بقول، ’اپنے لوگوں کو چھت کے بغیر دیکھنا میرے لیے تباہ کن ہے۔ ہم نے دو سو خاندانوں کی بحالی کی معمولی سی کوشش کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کسی کو شیلٹر نہیں بلکہ امید، شناخت اور دوبارہ آباد ہونے کی بنیاد فراہم کرنے کے مترادف ہے۔‘
ہماری طرف کا کوئی امی ورک بھائی امید اور شناخت کی الف شین سے واقف ہو گا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گپی گریوال بھینسوں کے لیے ’توڑی‘ مہیا کرنے میں لگا ہے۔ دل نہیں مانتا کہ ہمارے پنجاب کے فنکار اتنے دیسی ہوں گے کہ انہیں ’توڑی‘ کا پتہ ہو۔ اگر پتہ ہو بھی تو ایکٹنگ کریں گے جیسے وہ کبھی اتنے پینڈو تھے ہی نہیں۔
لے دے کہ حدیقہ کیانی ہیں یا ایک آدھ اور شوبز پرسنیلٹی جو میدان میں موجود اور والہانہ انداز میں کام کر رہے ہیں۔ والہانہ پن آپ کے اندر کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے، ورنہ بڑے بڑے لوگ یہاں کام کریں گے تو محض دکھاوا ہی لگے گا۔
ہمارے فنکار کبھی اتنی اچھی گفتگو کر سکتے ہیں، نہ اپنے لوگوں سے والہانہ وابستگی کا اظہار۔ جذباتی تعلق ہے نہیں تو اظہار کہاں سے آئے گا؟
آپ پنجاب کے دیہات میں جائیں، وہاں شام کے بعد لوگ قسطوں پہ لیا ہوا چھ سات ہزار والا ٹی وی صحن میں رکھ کر چارپائیوں پر بیٹھ کے ڈراما دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ماضی کے ڈرامے عام لوگوں کی کہانیاں سناتے ہوں گے، اب تو ہر جگہ ایک شہری قسم کا چمکتا دمکتا ماحول ہے۔
بڑی بڑی کوٹھیاں، لش پش گاڑیاں اور مہنگے کپڑے پہنے یہ اداکار ان لوگوں کے ہیرو ہیں جو چھ سات ہزار کا ٹی وی ایک ادائیگی میں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ وہ سوتے جاگتے انہیں آئیڈلائز کرتے ہیں، ان کی زندگیوں کو حسرت سے دیکھتے اور اپنے مسائل سے زیادہ ان کے ڈرامے کی اگلی قسط کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ انہیں کیا خبر کہ وہ اپنے دیوتاؤں کے لیے موجود ہی نہیں۔
کچھ سیانے جمع تفریق لے کر آ جائیں گے کہ ہمارے فنکار اتنی کمائی ہی نہیں کرتے۔ ٹھیک ہے نہیں کرتے لیکن کوئی ارادہ، ہمدردی یا دکھ درد میں شرکت کا فلمی ٹچ ہی دکھا دیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سلیبرٹی کلچر کو صرف حقیقت سے فرار کے طور پر بیچا گیا ہے۔ لوگ ان کے ڈراموں اور فلموں کو حقیقت سے بھاگنے کے لیے دیکھتے ہیں، لیکن ان فنکاروں نے کبھی حقیقت کو بدلنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ انڈین پنجاب کے دلجت دوسانجھ جب سیلاب میں کشتی لے کر نکلتے ہیں تو وہ اپنی کمیونٹی کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ فنکار صرف سٹیج پر نہیں بلکہ گاؤں کی گلیوں میں بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔
ہماری منافقت نے ایک اور جواز تراش رکھا ہے کہ خاموشی سے سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں۔
جب اپنی فلم ریلیز ہو تو سبھی فنکار میڈیا چینلز کے باہر لائن لگا دیتے ہیں، لیکن جب لاکھوں لوگ سیلاب میں گھر بار کھو دیں تو اچانک لو پروفائل ہو جاتے ہیں کہ خاموشی سے عطیات دے دیے۔ بھئی خاموشی سے کرنے والی عبادات آپ فوٹو شوٹ کرواتے ہیں، ہر وقت دوسروں کو نصیحت کرتے ہوئے اپنی پاک دامنی کا چرچا کرتے ہیں لیکن عوامی خدمت کے وقت آپ کو پردہ داری یاد آ جاتی ہے۔
سینیما کلچر سے ٹی وی ڈرامے تک شوبز میں ہر جگہ اشرافیہ کے کلچر کا راج ہے۔ کبھی عام آدمی کنگ میکر تھا۔ جس فلم کے چاہے ٹکٹ خریدے، جسے چاہے مسترد کر دے۔ فلم کا سارا بزنس ٹکٹوں کی فروخت پہ منحصر تھا۔ انڈیا میں اب بھی کسی حد تک یہ کلچر قائم ہے مگر ہمارے سینیماؤں کو پلازے نگل گئے۔
فلم کی موت کے بعد سینیما مالکان کے لیے ممکن نہ تھا کہ بڑی بڑی عمارتیں خالی رکھ کر بیٹھے رہیں۔ اس کے بعد سینیما ایک سماجی سرگرمی سے کٹ کر محض اقتصادی سرگرمی رہ گیا۔ سینٹورس جیسے مال میں عام آدمی فلم دیکھنے جائے گا؟ ہزار روپیہ ٹکٹ کا مطلب ہے چار پانچ ہزار کا ٹیکہ، کیونکہ یہ فیملی انٹرٹینمنٹ تھی۔ عام آدمی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں۔
شوبز شخصیات ہوں یا دیگر خود ساختہ سلیبرٹیز، دھرتی، مٹی اور گلی محلے کی زندگی سب کے لیے ایک تہمت ہے جسے کوئی برداشت نہیں کرنا چاہتا۔
انڈیا میں بالی وڈ اداکار بھی اچھے خاصے سرگرم ہوتے ہیں لیکن ساؤتھ، بنگلہ اور پنجاب کے سلیبرٹیز ہمیشہ اپنی جڑوں کو فخر سے چومتے اور مان سے اپناتے ہیں۔ ہماری جڑیں ہوا میں ہیں اس لیے زمین پر کبھی نہیں اترتے۔