پنجاب کے دریاؤں میں حالیہ سیلاب کے بعد اطراف کے علاقوں میں رہائش پذیر افراد کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، نہ صرف ان کے جانور پانی میں بہہ گئے بلکہ کاشت کیا گیا چارہ بھی پانی اپنے ساتھ لے گیا۔
ان ہی میں سے ایک ہیڈ خانکی کے قریبی علاقے کوٹ جعفر کے رہائشی خرم شہزاد بھی ہیں، جن کا خاندان نسل در نسل جانوروں کے کاروبار سے منسلک اور کافی عرصے سے اس علاقے میں رہائش پذیر ہے۔
خرم شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ سیلاب کے بعد انہیں جانوروں کے لیے چارے کی کمیابی کا سامنا ہے کیونکہ جو چارہ انہوں نے کاشت کیا تھا وہ سب سیلاب کی نذر ہو چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جب سے سیلاب آیا ہے اپنے جانوروں کے لیے چارہ مانگنا پڑ رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ان کے گاؤں کے بیشتر افراد جانوروں کے کاروبار سے ہی جڑے ہوئے ہیں اور خرم خود بھی انہی سے چارہ مانگ کر جانوروں کی خوراک کا بندوبست کر رہے ہیں۔
’سارا گاؤں ہی سیلاب جیسی آفت سے گزر رہا ہے تو ایسے میں دوستوں نے بھی مزید چارہ دینے سے انکار کر دیا ہے اور اب اپنے جانوروں کو صرف خشک ونڈا کھلا رہا ہوں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کی 25 بھینسیں اور گھر اس سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں اور اب وہ خانکی بیراج کے بند پر اپنے باقی ماندہ جانوروں کے ساتھ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا: ’میں نے پانچ بھینسیں سیلابی پانی سے پکڑی ہیں مگر یہ میری وہی بھینسیں ہیں جنہیں سیلابی پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا تھا۔‘
اپنے جانوروں کے ساتھ خانکی بیراج کے قریب بند پر چار پائی بچھائے بیٹھے محمد ندیم بھی سیلاب متاثرین میں سے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں جانوروں کے لیے چارہ نہ ملنے کی فکر کھائے جا رہی ہے کیونکہ ان کے مطابق آئندہ ایک ماہ انہیں چارہ لانے کے لیے مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی ایک حویلی ہے جو پانی میں ڈوب چکی ہے لیکن وہ اپنے جانوروں کے ساتھ بروقت وہاں سے نکل آئے تھے، جس کی وجہ سے ان کے جانور اور وہ خود تو محفوظ رہے ہیں لیکن کھلا آسمان، مسلسل بارش اور کیچڑ جانوروں کی بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔
بقول ندیم: ’چارہ سیلاب کی وجہ سے کمیاب ہو چکا ہے اور اگر یہ کمیابی برقرار رہی تو جانور کمزور اور بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ گذشتہ روز سرکاری حکام ان کے پاس آئے تھے اور انہوں نے بند پر بندھے سارے جانور مالکان کو ایک ایک چارے کی بوری بھی دی ہے۔