سیلاب کے بعد پاکستان میں جنگلات بڑھانے کے لیے تجاویز طلب

قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں چار دہائیوں سے جنگلات کاٹے جانے کی وجوہات پر بھی غور کیا گیا۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا 15 ستمبر 2025 کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہونے والا اجلاس (انڈپینڈنٹ اردو)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے لے کر میدانی علاقوں تک تباہ کن سیلاب کے بعد جنگلات کا رقبہ بڑھانے کے لیے تجاویز طلب کر لی ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس میں چار دہائیوں میں جنگلات کی کٹائی کی وجوہات پر بھی غور کیا گیا۔

جنگلات ماحول، معیشت اور قومی سلامتی کی پہلی دفاعی لائن ہیں جو بنیادی طور پر بارش کے پانی کو جذب کر کے سیلابوں کو روکتے ہیں۔ یہ زیر زمین پانی میں اضافہ، زرعی اراضی کو کٹاؤ سے بچاتے اور درجہ حرارت کم کرتے ہیں۔

پاکستان میں جنگلات کا رقبہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق  4.6 فیصد ہے۔

یہ اعداد و شمار وزارت موسمیاتی تبدیلی اور نیشنل فاریسٹ مانیٹرنگ سسٹم بھی جاری کر چکے ہیں جس کے مطابق پاکستان کے کل زمینی رقبےمیں سے 3.73 ملین ہیکٹر رقبے پر جنگلات ہیں۔

2020 کی فہرست میں جنگلات کے رقبے کے لحاظ سے 238 ممالک میں پاکستان کو 81 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس پیر کو منزہ حسن کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا۔ چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور کشمیر کے محکمہ جنگلات کے حکام بریفنگ دینے کے لیے اجلاس میں موجود تھے۔

کمیٹی کی چیئرپرسن منزہ حسن نے کہا کہ ’اگلے مون سون کی پیش گوئی کی جا چکی ہے۔ اگلے سال مون سون کی شدت 22 فیصد بڑھے گی۔ اس سے نمٹنے کا کیا طریقہ ہے؟ اس وقت درختوں کی کٹائی اور ٹمبر مافیہ کو کیسے روکیں گے؟ محکمہ جنگلات نے 2024 میں منصوبہ بندی شروع کی اور مون سون آ گیا۔ مون سون کے دوران جو صورت حال پیدا ہوئی وہ افسوسناک ہے۔‘

شگر، سکردو میں اگلے پانچ سال تک نئی تعمیرات پر پابندی

کمیٹی چیئرپرسن نے استفسار کیا کہ ’بارش کے پانی کے راستے پر جو گھر بنے ہوئے تھے اس کا آپ لوگوں نے کیا کیا؟‘

پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کے ڈائریکٹر خادم حسین نے کمیٹی کو بتایا کہ ’سکردو، سدپارا روڈ اور شگر کے علاقوں میں نئی تعمیرات پر اگلے پانچ سال کے لیے پابندی لگائی ہے۔‘

سیکریٹری جنگلات گلگت بلتستان نے بتایا کہ علاقے میں قدرتی جنگل 3.58 فیصد ہے جو دیامیر کی طرف ہے۔ گلگت بلتستان میں 18.98 کا علاقہ گلیشئرز پر مشتمل ہے جس میں ہنزہ، نگر، شگر، گانچھے، غزر، سکردو اور استور کے علاقے شامل ہیں۔ گلگت بلتستان کے 14.54 فیصد علاقے میں سبز میدان ہیں۔ اس کے علاوہ 53.38 فیصد زمین بنجر اور پتھریلے علاقے پر مشتمل ہے۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ جنگلات کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سیلاب اور مون سون کے بعد ایک تحقیق کرائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 20 سال سے جنگلات کی صورت حال کو دیکھ رہے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں سمیت خیبرپختونخوا میں جنگلات پر نظر رکھی جائے گی۔ ٹمبر کی سمگلنگ میں استعمال ہونے والا تمام سامان ضبط کر رہے ہیں۔

جنگلات کی نگرانی کے لیے تین تہوں پر مشتمل نظام

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیٹی کی رکن شائستہ خان نے کہا کہ ’میرا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ جنگلات میں آگ پر قابو پانے کا نظام نہیں۔‘

محکمہ جنگلات خیبرپختونخوا کے حکام نے بتایا کہ ’سیٹلائٹ کی مدد سے تین تہوں پر مشتمل مانیٹرنگ سسٹم لا رہے ہیں۔ ایک ارب روپے کا ٹینڈر ہوگیا ہے اور 360 ملین روپے لیب کی بہتری کے لیے ملے ہیں۔ جنگلات کی مانیٹرنگ کے لیے ڈرون استعمال کریں گے۔‘

کمیٹی کی رکن شائستہ خان نے نکتہ اٹھایا کہ ہزارہ میں جنگلات کا عملہ چیک پوسٹ پر سرے عام رشوت لیتا ہے۔ اس صورت حال کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے؟ کون سے درخت لگانے جا رہے ہیں جو اہم کردار ادا کریں گے؟‘ اس پر سیکریٹری جنگلات کے پی کے نے جواب دیا کہ رشوت پاکستان کا ایک جزوی مسئلہ ہے۔ دو جگہ پر ہماری قومی چیک پوسٹ قائم ہوں گی۔‘

سیکرٹری جنگلات کے پی کے نے مزید کہا: ’ہم نے سب چیزوں میں کمیونٹی کو ملا کر چلنا ہے۔ جنگلات کی ہر چیک پوسٹ کو ٹیکنالوجی سے منسلک کرنے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی جنگلات کاٹے، اہلکار شواہد مٹا نہیں سکیں گے۔ 3200  آسامیاں محکمہ جنگلات میں خالی ہیں۔‘ 

اس موقع پر رکن کمیٹی شائستہ رحمانی نے کہا کہ ’سیلاب میں سب نے دیکھا پانی میں درخت کیسے بہہ رہے تھے۔ ہم آپ کے بلین ٹری سونامی پر کیسے اعتبار کریں؟‘

چیئرپرسن کمیٹی منزہ کا کہنا تھا کہ ’خیبرپختونخوا کے ایک ایم این اے کو ان کی جماعت نے کمیٹی اجلاس میں آنے سے روکا۔ ان کی جانب سے جو اعداد و شمار دیے گیے وہ چونکا دینے والے ہیں۔‘ کشمیر کے محکمہ جنگلات حکام نے بتایا کہ ایک سال میں درختوں کی سمگلنگ کے 79 کیس پکڑے۔

موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح اور قدرتی جنگلات کے ساتھ ساتھ سماجی سطح پر بھی درخت لگانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں جنگلات کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ ٹمبر مافیا کے خلاف کارروائی بھی وقت کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات