گورنمنٹ کالج لاہور کی تاریخی عمارت کی بنیاد 1872 میں رکھی گئی۔ مجھے ایک عرصہ یہ جاننے کی کرید رہی ہے کہ لاہور کے اس مقام پر جی سی کی عمارت سے پہلے کیا تھا۔ جی سی جس رقبے پر قائم ہے، وہ لاہور کی عام اور اردگرد کی زمین سے قدرے اونچا ہے، گویا عمارت اونچے ٹیلے پر قائم کی گئی ہے۔
کرنل سلیم صاحب (عمر سو برس سے متجاوز) نے اپنے انٹرویو میں منیر احمد منیر کو بتایا ہے کہ 1939 میں وہ اپنے ایک دوست کو سائیکل پر جی سی چھوڑنے جاتے تھے۔ جنوبی سمت سے سائیکل کو جی سی کی عمارت تک چڑھانا، ہمت طلب کام تھا۔ ’جی سی کی عمارت عام شاہراہ سے کافی اونچائی پر واقع تھی۔‘
عمارت کی بلند کرسی نے مینار کی جمالیات کو دو چند کر دیا۔ ایسی پُرشکوہ عمارت کی کرسی غیر واضح اور نِیچی ہوتی تو حسن کے اندر قطعیت پیدا نہ ہو پاتی۔
موجودہ عمارت کی تعمیر سے پہلے یہاں پرانی بیرکیں واقع تھیں۔ ان بیرکوں کا ذکر کلکتہ میڈیکل کالج کے کاغذات اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کی تاریخ میں ملتا ہے۔ بیرکوں کی تعداد تین تھی۔ انھیں آرٹلری بیرکیں کہا جاتا تھا۔ دو بیرکیں جی سی کی مرکزی عمارت کی جگہ قائم تھیں، جب کہ تیسری بیرک شمالی سمت میں واقع تھی۔ خوش قسمتی سے شمالی بیرک اپنے اصل مقام پر موجود ہے۔
یونانی طرز کی یہ عمارت (موجود لائبریری) جی سی کی تاریخی عمارت کا تکملہ ہے۔ یہ عمارت اصلاً کتنی پرانی ہے، یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ اس کی شمالی روکار کے کنارے پر نصب پتھر کے تعویذ پر Erected In 1858 لکھا ملتا ہے۔
عمارت کی طرزِ تعمیر یونانی ہے۔ مشرقی و مغربی اطراف میں بلند و بالا ستون ہیں جو اوپر سے نیچے بتدریج چوڑے ہوتے جاتے ہیں۔ شمالی اور جنوبی سمت کی دیواروں میں بھی ستونوں کے نشان ملتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے، کسی زمانے میں چہار اطراف ستون ہوں گے، جنہیں بعد میں ضرورت یا مصلحت کے تحت پاٹ دیا گیا۔ مشرقی و مغربی رُوکاروں میں 5×5 فٹ کی دو دو چوکیاں بنی ہیں۔ چوکیوں کے اندر چھوٹے دروازے ہیں۔ (عمارات کی اصطلاح میں ان چھوٹے دروازوں کو ’کھڑکی‘ کہتے ہیں)۔ یہ بیرک آج بھی زمین سے چار ساڑھے چار فٹ بلند ہے۔
عمارت کی اندرونی چھت مضبوط اور بلند لکڑی کے آنکڑوں پر مشتمل ہے۔ آبنوسی شان کی یہ چھت اپنے رعب اور دبدبے میں یونان و روما کی عمارتوں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ عمارت کے بیرونی چھجوں میں بھی لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ (اگرچہ روغن اور لکڑی کے رنگ کی یکسانیت لکڑی کو نمایاں نہیں ہونے دیتی)
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کنگ ایڈورڈ کی تاریخ اور کلکتہ ہسپتال کے تاریخی کاغذات میں لکھا ہے، یہ بیرک پہلے پہل لاہور کی ابتدائی ڈسپنسری کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ سکھ حکومت کے انہدام کے بعد لاہور میں انگریزوں نے برطانوی طرز کا ہسپتال قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جنگ آزادی (1857) کے باعث یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو گیا۔ اس سے قبل ہندوستان بھر میں صرف دو میڈیکل کے ادارے موجود تھے (کلکتہ میڈیکل کالج 1835، اور گرانٹ میڈیکل کالج 1845)۔ بالآخر 1860 میں یہ ڈسپنسری فعال ہوئی۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور (1860) کی ابتدائی کلاسوں کا آغاز بھی یہیں ہوا۔ ابتدا میں اسے لاہور میڈیکل سکول کا نام دیا گیا۔ سند کے اوپر اردو / فارسی انداز میں ’مدرسہ طبابت لاہور‘ لکھا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں انہی بیرکوں میں جنوبی ہند کا پہلا اور ہندوستان بھر کا تیسرا میڈیکل کالج سکول ہوا۔
جنوبی سمت کی دو بیرکیں بھی اسی مقصد کے لیے مختص تھیں۔ 1872 میں جب جی سی کے لیے موجودہ زمین خریدیں گئی تو لاہور میڈیکل سکول ریلوے کے پرانے ہاسٹل میں منتقل ہو گیا۔ بعد ازاں اس ہاسٹل کو پیرس ہوٹل کا نام دیا گیا۔ 1886 میں میڈیکل سکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا۔
میڈیکل سکول (موجودہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی) کی اپنی عمارت 1883 میں تعمیر ہوئی۔ 1910 میں بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کی وفات کے بعد اس کے بیٹے جیورج پنجم نے ایڈورڈ فنڈ کا اجرا کیا۔ جس کے نتیجے کے طور پر 1911 میں لاہور میڈیکل کالج کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا نام دے دیا گیا۔
کنگ ایڈورڈ کی موجودہ عمارت (واقع بالمقابل نیلا گنبد) کی جگہ پر پہلے پہل فوجی چھاؤنیاں قائم تھیں۔ 1883 میں ان فوجی چھاؤنیوں کو انارکلی سے باہر میاں میر کے قریب جگہ دے دی گئی۔
انگریزوں کی تاریخ دوستی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جی سی کی موجودہ زمین پر قائم دو جنوبی بیرکوں کے انہدام کا فیصلہ بہ مجبوری کیا گیا ہو گا۔ بہر صورت تیسری بیرک اپنی جگہ پر قائم و دائم رہی۔
کرنل ایچ آر فولڈنگ نے سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع ہونے والی تحریروں میں لکھا ہے، ’ابتدا میں یہاں جمنیزیم واقع تھا اور اسی عمارت میں پرسبٹیرین گرجا بھی تھا جس میں فارمینز اور نیوٹنز اور دیگر مشنری عبادت کا اہتمام کرتے تھے۔‘
میرا ذاتی خیال ہے یہاں فارمینز اور نیوٹنز سے مراد ایف سی کالج اور نیوٹن ہاسٹل کے پادری مراد ہیں (نیوٹن ہاسٹل پر میرا آرٹیکل الگ سے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔) اس زمانے میں پادریوں کا باقاعدہ تقرر کیا جاتا تھا۔ انگریز، تعلیمی اداروں کو بہ سہولت جزوی گرجا گھر میں بدل لیتے تھے۔ دھیان سنگھ حویلی اور انارکلی کے مقبرے کا بطور گرجا گھر استعمال ہونا سامنے کی مثالیں ہیں۔
ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہاں صدر کے قیدیوں کو بھی پابند سلاسل رکھا گیا۔ ہو سکتا ہے اس بات میں حقیقت ہو۔ البتہ مجھے اس کا تحریری ثبوت نہیں مل سکا۔
21ویں صدی کے آغاز میں شمالی بیرک کی مرمت کروائی گئی۔ مرمت کے دوران ایک سکھ خانوادے نے ادارے سے خصوصی تعاون کیا۔
بیرک کی موجودہ حالت قابلِ اطمینان ہے، جس کا کریڈٹ کالج اور بعد ازاں یونیورسٹی کے ارباب اختیار کو جاتا ہے۔