راحیلہ نامی 18 سالہ لڑکی کا ڈاکٹر بننے کا خواب اس وقت ٹوٹ گیا جب ایک تیزاب کے حملے میں ان کا چہرہ اور جسم بری طرح جھلس گیا، ایک آنکھ ضائع ہو گئی اور زندگی کے عام معمولات ایک چیلنج بن گئے۔
لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور آن لائن ٹریڈنگ سیکھی۔ ’اب میں 35 سے 40 ہزار روپے کما لیتی ہوں۔
آج وہ اپنے زخموں کے ساتھ جینے پر مجبور ہیں اور انصاف کے وعدے پورے ہونے کی منتظر بھی۔
کراچی کے علاقے گلشن اقبال کی راحیلہ اب، اسلام آباد میں مقیم ہیں جن کی زندگی 2015 میں ایک دل خراش واقعے نے ہمیشہ کے لیے بدل دی۔ ان کے بقول ایک پولیس اہلکار ذیشان عمر نے ان کے والدین کی جانب سے رشتے کو مسترد کیے جانے پر ’انتقامی حملہ‘ میں ان پر تیزاب پھینک دیا۔
اس واقعے کے بعد کراچی کی مقامی عدالت نے پولیس اہلکار ذیشان عمر کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
پاکستان میں تیزاب گردی کے واقعات ایک سنگین مسئلہ رہے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق 2007 سے 2018 کے دوران ملک میں تقریباً 1485 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ہر سال اوسطاً 150 کے قریب واقعات پیش آتے ہیں۔
ملک میں مجموعی طور پر گذشتہ دو دہائیوں میں تقریباً 3400 ایسے کیسز رجسٹر کیے گئے لیکن ماہرین کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین اور بچے ایسے واقعات میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جبکہ متاثرین کو انصاف، طبی سہولتوں اور معاشرتی قبولیت کے حوالے سے بھی شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
راحیلہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کے بارے میں بتایا کہ وہ اس وقت ایف ایس سی کی طالبہ تھیں اور ساتھ میں انگلش لینگویج کورس بھی کر رہی تھیں۔
انہوں نے بتایا: ’وہ (ذیشان) بار بار شادی کی پیشکش کرتا رہا۔ میرے والدین نے صاف انکار کر دیا کہ بیٹی ابھی چھوٹی ہے اور تعلیم پوری کرنا چاہتی ہے۔ یہ انکار اس کے لیے ناقابل برداشت بن گیا۔‘
راحیلہ بتاتی ہیں کہ اس کے بعد وہ اکثر ان کا پیچھا کرتا اور ان کی روزمرہ نقل و حرکت پر نظر رکھتا تھا۔
یہ واقعہ رمضان میں جمعۃ الوداع کے روز تب پیش آیا جب راحیلہ گھر کے باہر دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مجرم نے دروازے کے تالے میں ایلفی ڈال کر اسے جام کیا اور جیسے ہی راحیلہ آئیں تو ان پر تیزاب پھینک دیا۔
راحیلہ کہتی ہیں کہ مجرم نے حملہ کرتے ہوئے کہا: ’اگر تم میری نہیں ہو سکتیں تو کسی اور کی بھی نہیں رہو گی۔‘
ہوش اڑا دینے والے مناظر
راحیلہ نے کہا: ’میرے چہرے اور جسم پر تیزاب پھیل گیا، گود میں موجود میری بہن کا چھ ماہ کا بچہ بھی متاثر ہوا۔ تیزاب گرنے سے دروازے پر بھی بڑے سوراخ بن گئے تھے تو سوچیں میری جلد کا کیا حال ہوا ہو گا۔
’میری بہن نے جب اپنے دوپٹے سے میرا چہرا اور متاثرہ جسم صاف کیا تو میری جلد اتر گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راحیلہ کے الفاظ ہیں کہ اس صدمے کی شدت ایسی تھی کہ ابتدا میں ڈاکٹروں نے انہیں حقیقت سے بچائے رکھا تاکہ وہ خود کو نقصان نہ پہنچائیں۔ انہیں کئی دن وینٹی لیٹر پر بھی رکھنا پڑا اور ڈاکٹروں کو ابتدائی دنوں میں ان کے زندہ بچ جانے پر یقین نہیں تھا۔
اس حملے میں راحیلہ کا چہرہ اور جسم بری طرح جھلس گیا، ایک آنکھ ضائع ہو گئی اور وہ اب ایک آنکھ سے تقریباً 30 فیصد بینائی رکھتی ہیں۔ معمولی کام جو عام لوگوں کے لیے معمول سمجھے جاتے ہیں، راحیلہ کے لیے چیلنج بن گئے ہیں۔
ان کے بقول: ’جب میں نے پہلی بار آئینے میں خود کو دیکھا تو ایسا لگا جیسے میں کسی ڈراؤنی فلم کا کردار ہوں۔ میں خود کو پہچان ہی نہیں پائی۔ وہ میری زندگی کا سب سے مشکل لمحہ تھا۔‘
عدالتی کارروائی اور معاوضے کا وعدہ
کراچی کی مقامی عدالت نے اس مقدمے میں ملوث پولیس اہلکار ذیشان عمر کو عمر قید کی سزا سنائی اور انہیں راحیلہ کو 10 لاکھ روپے جرمانے کی مد میں ادا کرنے کا حکم دیا۔ تاہم راحیلہ کا کہنا ہے کہ تاحال انہیں جرمانے کی رقم موصول نہیں ہوئی۔
بالی وڈ تک گونج
راحیلہ کی کہانی نے مقامی میڈیا کے ساتھ ساتھ بالی ووڈ کی توجہ بھی حاصل کی۔ بالی ووڈ کی فلم 'چھپاک' (2020) جس میں اداکارہ دپیکا پڈوکون نے مرکزی کردار ادا کیا، تیزاب گردی کی شکار ان جیسی خواتین سے متاثر ہو کر بنائی گئی۔
راحیلہ کہتی ہیں کہ جب وہ وینٹی لیٹر پر تھی تو بالی ووڈ کے لوگوں نے رابطہ کیا اور فلم کے کچھ مناظر ان کے زخموں اور دکھوں کی یاد دلاتے ہیں۔
معاشرتی رویہ
راحیلہ بتاتی ہیں کہ حادثے کے بعد ان کے گھر والوں نے بھرپور حوصلہ دیا مگر معاشرتی رویہ ہمیشہ ہمدردانہ نہیں رہا۔
ان کے بقول: ’کچھ لوگ ہمدردی کرتے ہیں، کچھ عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے ہمارے معاشرے میں متاثرہ افراد کو مزید ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔‘
ان کے لیے سب سے بڑا صدمہ اپنے مستقبل کے ٹوٹ جانے کا تھا۔ ’میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی، میرا مستقبل روشن لگ رہا تھا۔ لیکن ایک لمحے میں سب ختم ہو گیا۔‘
راحیلہ کہتی ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ سمجھتی تھیں کہ ان کی زندگی ختم ہو گئی ہے مگر پھر انہیں لگا کہ ان کا جینا دوسروں کے لیے پیغام بن سکتا ہے۔ وہ اپنے زخموں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ معاشرہ تیزاب گردی کے متاثرین کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا رویہ اپنائے۔ وہ انصاف کا تقاضا بھی کرتی ہیں اور اس بات پر زور دیتی ہیں کہ متاثرین کو طبی اور نفسیاتی دونوں سطحوں پر مستقل سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں۔