سیالکوٹ میں احمدی خاتون کی تدفین پر جلاؤ گھیراؤ: پولیس

تنازع 21 ستمبر کو پیر چک میں فوت ہونے والی احمدی خاتون قدسیہ تبسم کی میت مقامی قبرستان میں دفنانے سے روکنے پر شروع ہوا۔ احمدی افراد جب اس میت کو دفنانے گئے تو مقامی افراد نے جمع ہو کر زبردستی منع کیا۔

سیالکوٹ میں 28 ستمبر کو احمدی تنازعے پر جلاؤ گھیراؤ کے بعد جائے وقوع پر فائر بریگیڈ کی گاڑی موجود ہے (سکرین گریب، ترجمان جماعت احمدیہ)

سیالکوٹ کے نواحی علاقے پیرو چک موترہ میں احمدی خاتون کی تدفین کے معاملے پر شروع ہونے والا تنازع 28 ستمبر کو جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کی صورت اختیار کر گیا، جس پر پولیس نے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

سیالکوٹ کے علاقے پیرو چک موترہ میں پولیس کا کہنا ہے کہ ایک احمدی خاتون کی میت مقامی قبرستان میں دفنانے پر جاری تنازعہ اتوار کو بعض مشتعل افراد کی جانب سے جلاؤ گھیراو تک پہنچ گیا۔

مقامی افراد کی درخواست پر پولیس نے 23 ستمبر کو احمدی افراد کے خلاف توڑ پھوڑ اور تشدد کا مقدمہ درج کیا لیکن گذشتہ روز 28 ستمبر کو احمدیوں نے الزام لگایا کہ ان کے ڈیروں پر مشتعل افراد نے حملہ کر کے جلاؤ گھیراو کیا ہے۔

متعلقہ تھانے کے پولیس افسر محمد عدنان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جلاؤ گھیراؤ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ ایک خاتون کی مقامی قبرستان میں تدفین کے معاملہ پر اشتعال انگیزی کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے۔

پولیس امن و امان قائم رکھنے کے لیے فریقین میں افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔

ترجمان جماعت احمدیہ عامر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ معاملہ 21 ستمبر کو پیر چک میں فوت ہونے والی احمدی خاتون قدسیہ تبسم کی میت مقامی قبرستان میں تدفین روکے جانے سے شروع ہوا۔ ’احمدی افراد جب اس میت کو دفنانے گئے تو مقامی افراد نے جمع ہو کر زبردستی منع کیا۔ اشتعال انگیزی پر انتظامیہ نے چار دن بعد 14 کلومیٹر دور قبرستان میں تدفین کرائی۔‘

عامر محمود نے بتایا: ’اس قبرستان میں قیامِ پاکستان سے احمدیوں کو بھی تدفین کی اجازت ہے۔ لیکن گذشتہ ڈھائی سال سے احمدیوں کو یہاں تدفین نہیں کرنے دی جا رہی۔ اس عرصہ کے دوران چھ سے زائد احمدیوں کی تدفین دور دراز علاقوں میں کرنا پڑی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی شہری محمد یعقوب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’احمدی خاتون کی تدفین جان بوجھ کر مسلمانوں کے قبرستان میں کرنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ کچھ فاصلے پر ان کا الگ قبرستان بن چکا ہے۔ تدفین روکنے والوں پر احمدیوں نے حملہ کیا اور ہنگامہ آرائی کر کے متعدد افراد کو زخمی کردیا جس کا مقدمہ تھانہ موترہ میں 11 نامزد جبکہ 20 نامعلوم افراد کے خلاف درج کرایا گیا ہے۔‘

عامر محمود کے بقول، ’مقامی مشتعل افراد نے گذشتہ روز اتوار کی شام احمدیوں کے پانچ ڈیروں پر حملہ کیا۔ وہاں کھڑی گاڑیاں اور ٹریکٹر بھی جلا دیا۔ متعدد افراد کو زخمی کردیا اور ایک احمدی کی بازار میں دکان بھی نذرِ آتش کر دی۔

’حالات اب بھی کشیدہ ہیں، ہم نے پولیس کو کارروائی کے لیے درخواست دے دی ہے۔‘

احمدیوں کو پاکستان میں ستر کی دھائی میں غیرمسلم قرار دیئے جانے کے بعد سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے گذشتہ برس بھی پاکستان میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک اور تشدد پر سنگین تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے انہیں تحفظ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ احمدی عقیدے کے پیروکاروں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں، ناجائز گرفتاریوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ان کے اظہار، پرامن اجتماع اور میل جول کی آزادی کے حقوق پر قدغن ہے۔ 

اقوام متحدہ کے مطابق یہ صورت حال پاکستان میں احمدی برادری کے خلاف بڑے پیمانے پر پائی جانے والی نفرت اور مخالفت کی عکاسی کرتی ہے۔

عالمی ادارے نے پاکستان کے حکام پر زور دیا کہ وہ ان حالات پر قابو پائیں اور احمدی عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر حملوں کو روکنے اور ان کے خلاف نفرت اور تفریق کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ضروری اقدامات کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان