آسٹریلیا میں پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بدھ کو بتایا کہ وہ مصنوعی ذہانت کے ایک ایسے نمونے (پروٹوٹائپ) پر کام کر رہے ہیں، جو آن لائن لوگوں کو پھنسانے والے افراد کی جانب سے استعمال کی جانے والی جنریشن زی کی اصطلاحات اور ایموجی سے بھرپور پیغامات کو سمجھنے میں مدد دے گا۔
آسٹریلین فیڈرل پولیس کمشنر کریسی بیریٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا بلی انگ (بدسلوکی)، جنسی استحصال اور انتہا پسندی کی افزائش گاہ بن چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس سافٹ ویئر کمپنی مائیکروسافٹ کے ساتھ مل کر ایک ایسا ٹول تیار کر رہی ہے، جو بظاہر بے ضرر ایموجیز اور سلینگ (عوامی زبان) میں چھپے خطرناک پیغامات کو بے نقاب کرے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’ہمارے باصلاحیت آسٹریلین فیڈرل پولیس کے اراکین، مائیکروسافٹ کے ساتھ مل کر ایک مصنوعی ذہانت پر مبنی پروٹوٹائپ تیار کر رہے ہیں جو خفیہ پیغامات میں استعمال ہونے والے ایموجیز اور جنریشن زی اور الفا کی زبان کی تشریح کرے گا۔
’یہ پروٹوٹائپ ہماری ٹیموں کو بچوں کو نقصان سے بہت پہلے بچانے کے لیے زیادہ تیزی سے کام کرنے میں مدد دینے کا ہدف رکھتا ہے۔‘
بیریٹ نے نام نہاد ’کرائم فلوئنسرز‘ (Crimefluencers) کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں بھی خبردار کیا، یعنی وہ آن لائن مجرم جو سوشل میڈیا کے ہنر کو استعمال کر کے نوجوان اور کمزور صارفین کو نشانہ بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’یہ کرائم فلوئنسرز ہیں، جو انتشار اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کے جذبے سے متحرک ہیں اور ان کے زیادہ تر شکار کم عمر یا نو عمر لڑکیاں ہیں۔‘
آسٹریلیا 10 دسمبر سے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سے 16 سال سے کم عمر صارفین کو ہٹانے کے لیے کام کرے گا۔
دنیا بھر کے ریگولیٹرز سوشل میڈیا کے خطرات سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور اب سب کی نظریں اس بات پر مرکوز ہیں کہ آیا آسٹریلیا کی یہ سخت پابندیاں مؤثر ثابت ہو سکیں گی یا نہیں۔