گنگا جمنی تہذیب کا نام سنتے ہی نفیس ادبی محافل، شین قاف سے درست اردو، پان اور طبلے کی تھاپ پر تھرکتے بدن دل و دماغ میں بہشت کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔
تہذیب سکھاتے یہ روشنی کے پتلے پان کی چھالیہ کاٹنے کے لیے ایک خاص اوزار استعمال کرتے جسے ’سروتہ‘ کہتے ہیں۔ ہم جیسے گنوار پنجابیوں کو ’سروتہ‘ جیسے بھاری تہذیبی لفظ سے متعارف کروانے کا سہرا عارفہ سید صاحبہ کے سر ہے۔
وہ گذشتہ آٹھ دس برس سے ادبی کانفرنسوں اور سوشل میڈیا پر لکھنوی تہذیب کی مقبول ترین قصیدہ گو تھیں۔ شاہ کی تعریف میں شاہ کے خادم ہمیشہ بازی لے جاتے ہیں، اہل لاہور نے موج کوثر میں دھلی اردو کی شان میں کب کوئی کسر چھوڑی تھی، مگر سوشل میڈیا کے عہد میں عارفہ سید سے زیادہ شاید ہی کسی نے گنگا جمنی تہذیب کا شہرہ کیا ہو۔
اپنے پنجابی ہونے پر ویسے تو کب ندامت نہیں تھی مگر جب کبھی لکھنوی تہذیب کے قیصدے سنے خود کو خوب لعنت ملامت کی کہ خطہ تہذیب سے بہت دور اور اتنی تاخیر سے کیوں پیدا ہوا۔ دل میں ایک لہر انگڑائی لیتی ہے کہ کاش امراؤ جان کا ناز و ادا براہ راست دیکھا ہوتا اور دل پر کٹاریں کھائی ہوتیں۔
سچ پوچھیے تو گنگا و جمنا کے بہشت آفریں تذکرے سن سن کر اپنے راوی و چناب، سندھ و جہلم وغیرہ سے شرمندگی ہونے لگتی تھی۔
ایسے میں سوشل میڈیا کھولتا تو دل کو تسلی ہوتی کہ وہ تہذیب نہ دیکھی مگر کوئی ’سروتہ‘ اور اس کا استعمال بتانے والا تو ہے۔ کعبہ کو صنم خانے سے پاسبان ملتے نہیں دیکھے، البتہ لکھنو کو لاہور سے بہت سے پاسبان ملے۔
ہم اپنے اردگرد بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جن کے بارے میں مشہور ہوتا ہے کہ انہوں نے ساری زندگی زبان کی کمائی کھائی۔ زبان کی پھرتی اور جملوں کے ہیر پھیر کو اگر ٹی وی یا سوشل میڈیا کی زینت میسر آ جائے تو اشفاق احمد اور عارفہ سید پیدا ہوتے ہیں، اگر یہ ٹیلنٹ گلی محلے تک رہ جائے تو ضائع ہو جاتا ہے۔
ایک بار لاہور میں ان کے گھر ان سے ملاقات ہوئی۔ ہمارے ایک دوست ان کے ساتھ پوڈ کاسٹ کرنا چاہتے تھے۔ ملاقات میں ہم نے ان سے پوچھنے کی کوشش کی کہ ان کا بچپن لکھنو کے کن گلی محلوں میں گزرا، وہ کہاں سے ہیں؟ ہم جاننا چاہتے تھے کہ لکھنوی تہذیب ان کے خون میں کیسے گردش کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’ہم بس پاکستانی ہیں، یہی ہماری شناخت ہے۔‘
بعد میں پتہ چلا لکھنوی تہذیب کو یہ پاسبان لاہور سے میسر آیا تھا، وہی لاہور جو سیدہ عارفہ کے لیے ہمہ تن گوش رہا، مگر اپنے بارے میں خیر کے الفاظ کبھی نہ سن سکا۔
زبان کا استعمال انسان کی خوبصورت ارتقائی تخلیق ہے اور عارفہ سید کم از کم گفتگو کی حد تک اس کے استعمال میں لا جواب تھیں۔ سامع ایک ہو یا سینکڑوں، مجال ہے کبھی گلی محلے کا محاورہ استعمال کیا ہو۔
ہمارے فیس بکی دوست ظاہر محمود نے ان سے اپنی ملاقات کے احوال میں ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں،
ممتا کے بجائے آتش فشاں کا احساس لکھنوی تہذیب کی کوئی خاص نشانی تو ہو سکتی ہے، مقامی کلچر کا حصہ نہیں۔ عارفہ صاحبہ آس پاس سے کنارہ کشی اختیار کرتے کرتے اتنی دور نکل گئیں کہ جی سی لاہور کا منظر ہادی رسوا کے ناول کا سین محسوس ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں ہمیشہ یہ روایت رہی ہے کہ مقامی ثقافتوں کو اردو بولنے والی اشرافیائی تہذیب کے پیمانے سے تولا گیا۔ مقامی زبانیں، لب و لہجے، لباس اور رسوم اس تقابلی نظام میں ہمیشہ کمتر سمجھے گئے۔
اس ذہنیت کو ایک طرف مذہب پسندی کی تائید حاصل تھی، دوسری طرف ریاستی اداروں نے اسے اپنی چھتری بلکہ تنبو فراہم کیا۔
قیام پاکستان کے بعد جو قومی شناخت تشکیل دی گئی، وہ ایک مخصوص متوسط یا اعلیٰ طبقے کی شہری تہذیب سے مستعار تھی۔ اردو کو قومی زبان قرار دینے کے فیصلے سے لے کر نصاب، میڈیا اور سرکاری تقریبات تک، ایک ایسی ثقافتی یکسانیت کا پرچار کیا گیا جس نے پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتون اور سرائیکی زبانوں اور ثقافتوں کو حاشیے پر دھکیل دیا۔
قوم بنانے کا خواب یا جنون اخباروں سے ہوتا ہوا ٹی وی اور پھر سوشل میڈیا تک پہنچا۔ ٹی وی کے دور میں تلقین شاہ نصیحتیں کرتے ہوئے تصوف کے تڑکے سے ہلکی آنچ پر قوم کی ذہن سازی کرتے رہے۔ ادبی کانفرنسوں میں یہ گدی عارفہ سید صاحبہ نے سنبھالی۔
جب ہمیں لکھنوی تہذیب کے تیزی سے رو بہ زوال (جسمانی اعتبار سے) اس پیکر سے ملاقات سے کا شرف حاصل ہوا، ہم تھوڑا سا بھی مقامی کلچر کی بات کرتے تو وہ چڑنے لگتیں۔ ان کے ماتھے پر بل نمودار ہوتے، چند صاف و شفاف سکے منہ کی گلک سے نکلتے اور تائید میں ہمارا ہلتا سر دیکھ کر وہی بل ہونٹوں پر تبسم کی ہلکی سی لکیر میں تبدیل ہو جاتے۔
عارفہ سید چلی گئیں، مگر فکر کی کیا بات۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے پُر کرنے کے لیے لکھنو سے قافلہ بلانے کی ضرورت نہیں، لاہور کے پاس ایسے کئی ’وارث‘ تیار بیٹھے ہیں۔