دنیا کی سب سے بڑی دو معیشتیں، امریکہ اور چین، آخر کار تجارتی کشیدگی کو کچھ کم کرنے پر راضی ہو گئی ہیں۔
چین نے امریکہ سے درآمد ہونے والی زرعی مصنوعات پر جوابی ٹیرف کچھ کم کیے ہیں۔ ان میں سویا بین، مکئی، اور گندم شامل ہیں اور امریکہ نے فینٹانائل اور اس کے کیمیکلز پر لگائے گئے ٹیرف 20 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیے۔ اس میں فارما، کیمیکل اور صنعتی اشیا شامل ہیں۔
چِپس، سیمی کنڈکٹرز اور نایاب معدنیات پر برآمدی کنٹرولز میں جزوی نرمی پر اتفاق بھی کیا ہے۔ یہ چھوٹے فیصلے دراصل عالمی معیشت میں اعتماد کی کرن کی مانند ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تناؤ میں کمی سے پاکستان کس طرح متاثر کر سکتا ہے؟
پاکستان چائنا جوائنٹ چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر نذیر حسین نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی نرمی پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہے اور امتحان بھی ہے۔ جب سے چین امریکہ تجارت کچھ بحال ہوئی ہے تب سے خام تیل، سونا اور سٹاک مارکیٹس میں اتار چڑھاؤ کم ہوا ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے، عالمی معیشت میں ریلیف کا تاثر پیدا ہوا ہے جس کا اثر پاکستان کی مارکیٹ پر پڑا ہے۔خاص طور پر سونے کے ریٹ میں اتار چڑھاؤ کم ہوا ہے۔ یہ ٹیرف معاہدہ فی الحال عارضی اور محدود نوعیت کا ہے، لیکن عالمی سطح پر ایک اعتماد سازی کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان اور چین کا تجارتی حجم تقریباً 16 ارب ڈالر ہے جس میں سے صرف 2 ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ پاکستان چین کو کرتا ہے۔ چونکہ ابھی تک چین امریکہ تجارت مکمل بحال نہیں ہوئی اس لیے موجودہ حالات میں استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہےلیکن اس کے لیے پاکستانی بزنس کمیونٹی کا رجحان امریکہ اور یورپ سے ہٹا کر چائنا کی طرف کرنا ضروری ہے۔ چائنیز حکومت نے پانچ بزنس فسیلیٹیشن سنٹرز بنائے ہیں۔ ہمارا چمبر پچھلے ہفتے اس کا ممبر بنا ہے۔ اب اگر کسی نے چائنا تجارت کرنی ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرے گا اور چائنیز حکومت اس کی مکمل رہنمائی کرے گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جب چین اور امریکہ کے درمیان ٹیرف کم ہوتے ہیں تو عالمی لاگت کم ہوتی ہے، جس سے پاکستان کی درآمدی اشیا (مشینری، موبائل، خام مال) نسبتاً سستی ہو سکتی ہیں۔ روپے کی قدر پر دباؤ کم ہوسکتا ہے اور ممکن ہے مہنگائی کے بوجھ میں بھی کچھ نرمی آئے۔‘
کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چائنا کی امریکہ سے سب سے بڑی درآمد سویابین ہے۔ جو کہ تقریباً 13ارب ڈالر ہے۔ پاکستان تقریباً سالانہ دو ارب ڈالرز کا سویا بین امریکہ برازیل سمیت کئی ممالک سے درآمد کرتا ہے اور اس کا زیادہ استعمال پولٹری فیڈ میں ہوتا ہے۔ اس لیے پاکستان امریکہ کے مقابلے میں چائنا کو سویا بین فراہم نہیں کر سکتا۔ گندم اور مکئی سمیت کئی اشیا پاکستان پیدا کرتا ہے لیکن چائنا میں برآمد نہیں کرتا۔ کیونکہ پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق گندم پیدا نہیں کرتا اور مجبورا گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم درآمد کرنا افسوسناک ہے۔‘
ان کے مطابق ’پاکستانی زرعی مصنوعات کی چائنا میں بہت ڈیمانڈ ہے۔ پاکستان کی سرخ مرچ کی چائنا میں ڈیمانڈ ہے لیکن ایکسپورٹر اس میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ اس کے علاوہ کورنٹین کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان ان معیار پر پورا نہیں اترتا، اس لیے پاکستان فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے۔‘
پاکستان یو ایس اے بزنس ایف پی سی سی آئی کے چیئرمین شیخ امتیازنے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان امریکہ تقریباً 7ارب 50 کروڑ ڈالرز کی تجارت کرتے ہیں۔ جن میں ٹیکسٹائل تقریبا 6ارب ڈالر ہے۔ پاکستان امریکہ کوسب سے زیادہ ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے لیکن ان میں پاکستان چین کا حریف نہیں ہے۔ چائنا اور پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات مختلف ہیں۔ اس لیے پاکستان متاثر نہیں ہو گا۔لیکن انڈیا پر ٹیرف لگنے کے بعد پاکستان نے بڑا حصہ امریکی مارکیٹ سے حاصل کر لیا ہے اور دسمبر تک امریکہ کو تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالرز کی ٹیسکٹائل ایکسپورٹس بڑھ سکتی ہیں۔ پاکستان سیمی کنڈیکٹرز اور چپس نہیں بناتا اس لیے وہ امریکہ میں چین کا مدمقابل نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق ’اگر چین اور امریکہ فینٹانائل کیمیکل کے تجارتی ضوابط نرم کرتے ہیں تو اس سے علاقائی فارما انڈسٹری میں سرمایہ کاری بڑھ سکتی ہے اور پاکستان چین کے ساتھ جوائنٹ وینچرز کے ذریعے اور خام کیمیکلز کی پیداوار یا پروسیسنگ سینٹرز قائم کر کے اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘
خیبرپختونخواہ بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ میں مائنز اینڈ منرلز کے ڈپٹی ڈائریکٹر اختر علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس وقت چائنہ اور امریکہ کے درمیان اصل تنازع رئیر ارتھ منرلز کا ہے اور پاکستان کے پاس 17میں سے 12رئیر ارتھ منرلز موجود ہیں۔ پاکستان کی عالمی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ گئی ہے۔ یہ جنگی جہازوں سے لے کر الیکٹرک گاڑیوں تک استعمال ہو رہے ہیں۔ چائنا ذخائر میں اضافہ کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان بہترین آپشن ثابت ہو سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اگر سرکار بہتر حکمت عملی اپنائے تو ملک کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان امریکہ اور چائنا دونوں کو منرلز برآمد کر سکتا ہے لیکن اس ملک کو منرلز برآمد کرنا چاہییں جو منرلز کو را فارم کی بجائے فنشڈ پراڈکٹس بنا کر پاکستان سے لے جائے۔ امریکہ کی بجائے چائنا اس میں زیادہ مہارت رکھتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ منرلز معاہدے تکمیل تک پہنچنا مشکل ہیں۔ ایک تو فاصلہ زیادہ ہے اور دوسرا یہ کہ امریکی کمپنیاں بلوچستان کے ماحول میں کام نہیں کر پائیں گی۔اس لیے موجودہ حالات میں پاکستان کے مثبت طور پر متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں۔‘
پاکستان کی قسمت سرکار کی محنت اور بصیرت پر منحصر ہے۔ اگر حکومت نے موقع کو پہچانا اور صحیح حکمت عملی اپنائی، تو پاکستان عالمی تجارتی نقشے پر اپنی پہچان مضبوط کر سکتا ہے۔ورنہ یہ موقع بھی یوں ہی ہاتھ سے نکل جائے گا، جیسے بہت سے دوسرے امکانات جو ہم نے ضائع کیے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔