اویغور نسل کشی کے باوجود امریکہ چین سے تعاون کے لیے پرامید

نئے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا کہ امریکہ اویغور نسل کشی سمیت اور دیگر مسائل پر چین سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔

نئے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے چین میں اویغور مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے اور امریکہ اس مسئلے سمیت دیگر امور پر چین سے تعاون قائم رکھنے کی امید کرتا ہے۔    

 بدھ کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن صحافیوں سے خطاب میں بلنکن کا کہنا تھا کہ وہ چین کے ساتھ موسمیاتی بحران اور اویغور نسل کشی سمیت دیگر مسائل پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ’امریکہ اور چین کا تعلق بلا شبہ دنیا کا سب سے اہم تعلق ہے۔ اس تعلق میں کچھ مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ مقابلے بازی پر مبنی ہے اور اس میں تعاون کے امکانات بھی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنا دونوں ممالک کے حق میں ہے۔ ’مجھے امید ہے کہ ہم ان تمام معاملات پر ہماری خارجہ پالیسی کے مطابق بات چیت کر سکتے ہیں اور ہمیں ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

یاد رہے کہ بلنکن کے پیش رو مائیک پومپیو نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ چین اویغور مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔

صدر جو بائیڈن نے چین سے مقابلہ کرنے کی پالیسی کو اپنانے کا اعلان کیا ہے لیکن اس حوالے سے سخت موقف رکھنے والے افراد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایسا کرنے سے شمالی کوریا اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل پر سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ موسمیات کے لیے وائٹ ہاؤس کے خصوصی صدارتی سفیر جان کیری کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ امریکی مسائل پر موسمیات کے بدلے سودا نہیں کیا جائے گا۔

اپنے پہلے خطاب میں بلنکن نے گذشتہ انتظامیہ کے دوران افغان طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: ’ہمیں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کو باریکی سے سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ ہم نے طالبان سے کیا وعدے کیے ہیں اور انہوں نے ہم سے کیا وعدے کیے ہیں۔‘

انہوں نے افغانستان میں امن کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن نے انہیں بطور نمائندہ خصوصی اپنا کام جاری رکھنے کا کہا ہے۔ 

زلمے خلیل زاد نے فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت امن کی گارنٹی کے بدلے افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا کیا جانا تھا۔ بلنکن کے مطابق بائیڈن انتظامیہ اس معاہدے پر نظر ثانی کررہی ہے تاکہ دونوں اطراف سے کیے جانے والے وعدوں کو سمجھا جا سکے۔

یاد رہے کہ صدر اوباما کے نائب کے طور پر جو بائیڈن افغانستان سے انخلا کے حامی رہے ہیں لیکن وہ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے افغانستان میں کم تعداد میں فوج رکھنے کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔    

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران کو جوہری معاہدے پر امریکہ سے قبل عمل کرنا ہو گا۔ امریکہ صدر ٹرمپ کے دور میں اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ ہو گیا تھا۔

جوہری معاہدے کے حوالے سے بطور وزیر خارجہ پہلا بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’اگر ایران معاہدے پر مکمل عملدرآمد شروع کرتا ہے تو امریکہ بھی ایسا ہی کرے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایران معاہدے میں واپس آتا ہے تو واشنگٹن ایک موثر اور طویل المدتی معاہدے کی کوشش کرے گا جو دوسرے پیچیدہ مسائل پر بھی توجہ دے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے ان مسائل کی نشاندہی نہیں کی لیکن صدر بائیڈن اس حوالے سے ایران کے میزائل پروگرام،عراق، شام، لبنان اور یمن میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کا ذکر کر چکے ہیں۔

اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا: ’ایران معاہدے کی مختلف شقوں پر عمل نہیں کر رہا اور اسے معاہدے میں واپس آنے کا فیصلہ کرنے اور ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کے، ان شرائط پر درست عمل ہو رہا ہے، میں کچھ وقت لگے گا۔ ہم ابھی اس مقام پر نہیں ہیں۔‘

انہوں نے اس بارے میں موقف نہیں دیا کہ کون سا امریکی عہدے دار ایران کے ساتھ مذاکرات کی سربراہی کرے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ