امریکہ چین بڑھتی کشیدگی: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

ایک طرف امریکہ نے بیجنگ اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کر رکھا ہے تو دوسری جانب پاکستان وزیرِ اعظم کی قیادت میں ان میں شمولیت کر رہا ہے۔

امریکی بحریہ کے جہاز 11 اپریل 2019 کو بحیرۂ جنوبی چین میں فلپائن کے ساتھ مل کر حصہ لے رہے ہیں (اے ایف پی)

زیرِ اعظم عمران خان اس ہفتے چین کے تین دن کے دورے پر روانہ ہوں گے تو دنیا اس دورے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہو گی۔

یہ دورہ اس لحاظ سے بےحد اہمیت کا حامل ہے کہ ایک طرف امریکہ کی خواہش میں اور اس کی شاگردی میں کینڈا، آسٹریلیا اور چند اور ملکوں کی جانب سے چین کے سرمائی اولمپکس کا سفارتی بایئکاٹ کیا گیا ہے۔

اس کے باوجود پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں اس کی شمولیت کو اعلیٰ ترین سطح پر یقینی بنایا جائے۔

امریکہ کے بیان کردہ بائیکاٹ کی بظاہر اور مبینہ وجہ چین کی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اگر واقعی انسانی حقوق کی اہمیت ہوتی تو پھر بھارت کی ریاست جس نے کشمیریوں اور اب اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں پر، ظلم و زیادتی کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس سے امریکی حکومت کے اتنے گہرے سٹریٹیجک تعلقات کیسے قائم ہیں؟

اگر انسانی حقوق ہی مسئلہ ہے تو پھر بھارت اور اسرائیل کا بایئکاٹ کیوں نہیں؟ اس سب منافقت سے بڑھ کر امریکہ نے چین کے خلاف ایک باقاعدہ سیاسی، سفارتی، اقتصادی اور عسکری مہم جوئی شروع کر رکھی ہے۔

چین کے دو نہایت اہم اور دیرینہ سیاسی اور سٹرٹیجک معاملات تائیوان اور بحیرۂ جنوبی چین ہیں۔ ان دونوں معاملات پر امریکہ کی منفی اور جارحانہ پالیسی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ امریکہ میں چین کے سفیر نے حال ہی میں امریکہ کے ایک ریڈیو سٹیشن کو انٹرویو میں کہا کہ ان حالات میں جنگ عین ممکن ہے۔

اس پس منظر میں پاکستان کا چین سے دوستی کا علم بلند کرنا یقیناً بہت اہم ہے، اور وزیرِ اعظم کے دورے کے دوران پاکستان چین تعلقات کےاہم معاملات بھی آگے بڑھانے کا وقت ہے۔ اس دورے میں دفاعی اور عسکری معاملات آج کے خطے کے اور چین امریکہ کے بگڑتے حالات پر تفصیلی بات ہو گی اور اہم فیصلے بھی متوقع ہیں جن میں اقتصادی معاملات یعنی سی پیک سے منسلک اہم فیصلے بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی ٹیم چینی حکومت اور سرمایہ کاروں کو سی پیک سے منسلک سپیشل اکنامک زونز میں دی جانے والی مراعات سے بھی آگاہ کریں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان اور چین کے اہم اور سات دہائیوں پر محیط تعلقات دونوں ممالک کی اقتصادی، عسکری اور سفارتی سالمیت کے لیے بہت اہم ہیں۔ ملکی تعلقات بنیادی طور پر اپنے فوائد کے حصول کے لیے ہی قائم کیے جاتے ہیں۔ ان فوائد کی نشاندہی ملک کے اندرونی اور خارجی حالات کی بنا پر ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان اپنے خطے میں ایک طرف بھارت کی منفی اور جارحانہ پالیسی کا سامنا کر رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ چین سے اپنی سرد جنگ کو نہ تو گرم کرنے سے ہچکچا رہا ہے اور نہ ہی بھارت سے اپنے سٹریٹیجک قربت کو ایک تاریخی سطح پر لے جانے سے جھجک رہا ہے۔

امریکہ دشمن کے دشمن سے آپ کی یاری بڑھتی جائے کے اصول پر گامزن ہے۔ مئی 2020 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سنگین فوجی محاذ آرائی کے بعد امریکہ اور بھارت کے عسکری تعلقات میں مضبوطی اور قربت پیدا ہوئی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے اس کی سالمیت کے لیے خطرات بڑھے ہیں۔

امریکہ چین کی طرف بڑھتے ہوئے جارحانہ عزائم کے لیے چین کے دوسرے مخالف بھارت کے ساتھ عسکری اور اقتصادی قربت کے نتیجے میں پاکستان کو اور بھی زیادہ بھارت کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ بہت حد تک پاکستان میں کچھ اہم لوگوں کو ہر حربے استعمال کر کے امریکہ یہ باور کروانے کی کوشش کر رہا ہے کہ بھارت سے بات چیت شروع ہونی چاہیے، کشمیر وغیرہ کے مسائل کو بعد میں دیکھا جائے گا۔

تاہم گذشتہ وزیرِ اعظموں کی طرح عمران خان بھی کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت سے تعلقات میں بڑھاوا نہیں چاہتے۔

 امریکہ کی موجودہ چین اور بھارت کی پالیسی کی سمجھ بوجھ رکھنے والے پاکستان کے لیے واضح کرتی ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور خوشحالی کے سفر کا قابل اعتماد اور مضبوط ساتھی کون ہو سکتا ہے۔

 پھر یہ سوال جو اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں بہت پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر امریکہ اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تو پاکستان کس کا ساتھ دے گا۔ یہ سوال ایک نہایت سادہ، تاریخی حقائق اور منطق سے عاری ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر