ایکواڈور کے سب سے زیادہ مطلوب منشیات فروشوں میں سے ایک ویلمر چاواریا، جو ’پیپو‘ کے نام سے مشہور ہیں، کو اتوار کو سپین کے شہر مالاگا میں گرفتار کر لیا گیا۔ وہ کئی سال قبل اپنی موت کا ڈرامہ رچانے کے بعد اور وہاں منتقل ہو گئے تھے۔
ایکواڈور کے صدر ڈینیئل نوبوآ نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی سپین کی پولیس کے ساتھ مشترکہ آپریشن کا نتیجہ ہے۔
چاواریا کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ لوس لوبوس نامی منشیات فروش گروہ کی قیادت کرتے ہیں، جس کے تقریباً آٹھ ہزار جنگجو ہیں۔
امریکہ نے حال ہی میں اس تنظیم کو دہشت گرد گروہ قرار دیا ہے اور اس کا تعلق ایکواڈور میں سیاسی قتل و غارت سے جوڑا جاتا رہا ہے۔
اس پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ میکسیکو کے جالیسکو نیو جنریشن کارٹل کے ساتھ قریبی تعاون کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوبوآ نے کہا کہ چاواریا نے 2021 میں کووڈ وبا کے دوران اپنی موت کا جھوٹا ڈرامہ رچایا، نئی شناخت حاصل کی اور سپین منتقل ہو گیا، جہاں سے وہ منشیات کی ترسیل کی نگرانی کرتا تھا، قتل کے احکامات دیتا تھا اور ایکواڈور میں سونے کی کانوں سے بھتہ وصول کرنے کے ریکیٹ چلاتا تھا۔
2010 کی دہائی کے اوائل میں ایکواڈور جنوبی امریکہ کے سب سے پرامن ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ لیکن ایک کروڑ 80 لاکھ آبادی والے اس ملک میں حالیہ برسوں میں قتل اور پرتشدد جرائم میں شدید اضافہ ہوا، کیونکہ یہ پڑوسی ملک کولمبیا اور پیرو میں تیار ہونے والی کوکین کی سمگلنگ کا اہم راستہ بن گیا ہے۔
منشیات فروش گروہوں نے صدارتی امیدواروں، مقامی حکام اور صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا ہے کیونکہ وہ بندرگاہوں اور ساحلی علاقوں پر کنٹرول کے لیے لڑ رہے ہیں۔
چاواریا کی گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایکواڈور کے شہری چار نکاتی ریفرنڈم میں ووٹ ڈال رہے ہیں، جس میں ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا غیر ملکی ممالک کو ایکواڈور میں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دینے کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے۔
ایکواڈور کے صدر ڈینیئل نوبوآ کا کہنا ہے کہ یہ اصلاح منشیات کے خلاف بین الاقوامی تعاون، جیسے امریکہ کے ساتھ شراکت داری، کو مضبوط بنانے اور منشیات فروش گروہوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔