منشیات بیچنے کے لیے مشہور ایپس کا استعمال

یورپ میں جرائم پیشہ افراد قانون سے بچنے اور سہولت کے لیے خریداروں سے بذریعہ بوٹ بات چیت کرتے ہیں۔

منشیات فروش آج کل نئے طریقے ’ ڈیڈ ڈراپ‘ کے ذریعے خریداروں تک منشیات پہنچاتے ہیں۔ تصویر:اے ایف پی 

ڈارک ویب پر دھندہ کرنے والے منشیات فروشوں نے اپنی منشیات بیچنے کے لیے مشہور سمارٹ فون ایپس کا سہارا لے لیا ہے۔

ڈارک ویب کی اصطلاح ان مخصوص ویب سائٹس کے لیے استعمال ہوتی ہے جو صرف انکرپٹڈ نیٹ ورک پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

یہ ویب سائٹس نہ تو عام لوگوں کے لیے ہیں اور نہ ہی انہیں سرچ انجن کے ذریعے روایتی براؤزر کی مدد سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عام طورپر ڈارک ویب منشیات، غیر قانونی اسلحہ اور فحش مواد سمیت دوسرے غیر قانونی کاموں کے لیے مشہور ہے۔

منشیات فروشوں نے بھی اب ان ایپس کا سہارا لے لیا ہے۔

سائبر ماہرین کے مطابق غیر قانونی آن لائن مارکیٹوں پر کریک ڈاؤن کے بعد جرائم پیشہ گروہوں میں مشہور ایپس استعمال کرنے کے بڑھتے رجحان کی ایک وجہ ان ایپس کی محفوظ انکرپشن ہے، جس کی وجہ سے انہیں استعمال کرنے والوں کی شناخت ممکن نہیں ہوتی۔

ڈارک ویب پر تحقیق کرنے والے ایک محقق نے دی انڈپینڈنٹ کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کس طرح جرائم پیشہ افراد قانون سے بچنے اور سہولت کے لیے خریداروں سے بذریعہ بوٹ بات چیت کرتے ہیں۔

میسجنگ ایپ ’ٹیلی گرام‘ کے مختلف چینلز تک رسائی پانے والے اس محقق نے ایک چینل کی تصاویر شیئر کیں، جن میں ممکنہ خریداروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ اڈوں اور دوسرے پبلک مقامات پر سپرے پینٹنگ کی گئی تھی۔

محقق نے بتایا کہ منشیات فروش آج کل نئے طریقے ’ ڈیڈ ڈراپ‘ کے ذریعے خریداروں تک منشیات پہنچاتے ہیں۔

اس طریقے سے منشیات فروش نہ صرف پولیس بلکہ خریدار سے بھی اپنی شناخت خفیہ رکھ پاتے ہیں۔

اس طریقے میں خریدار سے معاملہ طے ہونے کے بعد منشیات پبلک مقامات مثلاً پارک وغیرہ میں چھپا دی جاتی ہے اور پھر خریدار کو اُس مقام کی نشان دہی کی جاتی ہے۔

ممنوعہ چیزوں کی خرید و فروخت کے لیے بٹ کوائن جیسی کرپٹو کرنسی کا استعمال بھی شروع ہو چکا ہے۔

ڈیڈ ڈراپ کرنے والے گروہوں کا پہلا سراغ  یوکرائن میں ملا تھا، جس کے بعد یہ روس، بلقان، وسطی اور مشرقی یورپ میں بھی نظر آنے لگے۔

یوروپول کے خصوصی مشیر رک فرگوسن نے بتایا کہ مضبوط انکرپشن نے صارف کی شناخت تقریباً نا ممکن بنا دی ہے اور اسی وجہ سے جرائم پیشہ گروہوں میں ٹیلی گرام جیسی ایپس مشہور ہیں۔

سائبر سکیورٹی فرم ٹرینڈ مائیکرو کے شعبہ ریسرچ کے سربراہ فرگوسن نے دی انڈپینڈنٹ کو مزید بتایا، ’آج کل جرائم پیشہ گروہ اپنے دھندے کو باقاعدہ ایک کاروبار کی طرح چلاتے ہیں اور ایسے میں انہیں خریداروں سے رابطے کے لیے قابل بھروسہ طریقے درکار ہیں۔‘

فرگوسن کے مطابق اسی وجہ سے ٹیلی گرام جرائم پیشہ افراد کا اولین انتخاب ہے لیکن یہ پہلی ایپ نہیں جس کا غلط استعمال ہو رہا ہو، ایک زمانے میں فیس بک میسنجر اور واٹس ایپ بھی غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہوئے تھے۔

ٹیلی گرام ماضی میں داعش کے زیر استعمال ہونے کی وجہ سے بھی خبروں کی سرخی بنی، جس کے بعد اس نے تخریبی سرگرمیوں میں زیر استعمال چینلز پر بڑا کریک ڈاؤن کیا۔

حال ہی میں ایک تحقیق سے ٹیلی گرام پر چوری شدہ کریڈٹ کارڈز اور بچوں کے استحصال پر مبنی تصاویر شیئر ہونے کا پتہ چلا تھا۔

سائنوپسز سافٹ ویئر کمپنی کے سکیورٹی انجینئر بورس سیپوٹ کے مطابق انکرپشن ایپس اچھی نیت مثلاً حکومتی جاسوسی اور نجی بات چیت کو محفوظ بنانے کے لیے شروع ہوئی تھیں، تاہم بدقسمتی سے ان ایپس کو منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔

ٹیلی گرام نے دی انڈپینڈنٹ کے سوالوں پر کوئی ردعمل نہیں دیا، تاہم ٹیلی گرام ماضی میں واضح کرچکی ہے کہ وہ اپنے چینلز پر غیر قانونی سرگرمیوں کو تلاش اور ختم کرنے کے لیے انتہائی سرگرم ہے۔

حکام کی جانب سے جرائم پیشہ گروہوں کی شناخت اور روک تھام میں شدید مشکلات کے باوجود سائبر ماہرین ٹیلی گرام جیسی ایپس کی انکرپشن میں کسی سمجھوتے کے خلاف ہیں۔

یوروپول کے مشیر رک فرگوسن کہتے ہیں کہ حکومتوں کی جانب سے سافٹ ویئرز میں پچھلے دروازے سے خفیہ رسائی کے مطالبوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی