کلگام کی ثریا کا عمران، باجوہ کو پیغام

’خدارا ایک بار ایٹم بم چلا کر ہمیں اس زندگی سے آزاد کردو تاکہ پورا کشمیر بنجر بن سکے اور بھارت کو ویران یا بنجر زمین مل جائے۔‘

سری نگر میں کشمیری خواتین ایک جنازے کے موقع پر شدت جذبات سے نڈھال(اے ایف پی)

اس سے پہلے کہ میں عمران خان یا جنرل باجوہ تک کشمیر کے کلگام کی ثریا کا پیغام پہنچاؤں، میں ثریا کا تعارف کر دینا ضروری سمجھتی ہوں۔

ثریا ان 40 لاکھ کشمیری عورتوں میں شامل ہیں جو گذشتہ دو ماہ سے فوجی محاصرے میں قید ہیں اور باہر کی دنیا سے منقطع ہیں۔ بس بیرونی دنیا کی خبریں ریڈیو یا ٹیلیویژن سے پتہ چلتی ہیں وہ بھی اگر گھر میں بجلی دستیاب ہو یا ٹیلیویژن کا سبسکرپشن موجود ہو۔

کشمیر سے متعلق خبریں کتنی بھی چھوٹی یا معمولی کیوں نہ ہوں، اس پر سب سے لمبا تبصرہ ثریا کرتی ہیں جن کے آگے بھارت پاکستان کے معروف تجزیہ نگار ماند پڑ جاتے ہیں۔

ثریا کی معاشی اور معاشرتی حالت انتہائی خراب ہے مگر ان کا مزاج نرم اور تقریر گرم ہے جس کی بدولت ہی وہ گھرگرہستی کا بوجھ کئی برسوں سے خاموشی سے اٹھا رہی ہیں۔

چھ سال پہلے جب ان کی تیسری بیٹی پیدا ہوئی عین اس کے دو ہفتے بعد ان کا شوہر ان کو چھوڑ کے چلا گیا۔ سسرال والوں نے اسے ازدواجی معاملہ بتا کر اپنا دامن چھڑا لیا۔ میکے میں بھائی کے سوا کوئی نہیں تھا، وہ اپنا خرچ چلانے کی سکت نہیں رکھتا تھا تو اپنی بہن کو کیسے پالتا، ثریا نے اپنی تین بچیوں کو پالنے کا مشکل ترین بیڑا اکیلے اٹھایا۔

شادی شدہ رہنے تک وہ معاشرے کا ایک جیتا جاگتا حصہ تھیں مگر شوہر کے چھوڑنے کے بعد ان کا نام بھی تبدیل ہوگیا، شاید اس لیے کہ شوہر کے چھوڑنے کے بعد ان کی پہچان اور شناخت دونوں بدل گئی تھیں۔ اپنے وطن کی طرح، جو اب ریاست سے یونین ٹریٹری بن چکا ہے۔ حاکم وقت ہی تاریخ نہیں بدلتے، جیسے مودی بھارت کی تاریخ بدل رہے ہیں یا جغرافیہ کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں بلکہ اپنے گھر کے لوگ بھی بعض مرتبہ عورتوں کا وجود ہی مٹا دیتے ہیں۔ کسے معلوم کچھ وقت کے بعد جنوبی ایشیا میں ایک ہی ملک رہ جائے یا درجنوں نئے ممالک جنم لیں یا ثریا نام کی شے ہی دنیا سے ختم ہو جائے۔

کلگام کی ثریا نہ کسی امیر گھرانے میں پیدا ہوئیں اور نہ کسی امیر نے اپنے عقد میں لیا۔ جس نے نکاح کرکے مہربانی کی تھی وہ بھی چھوڑ کر چلا گیا۔ اب امیر گھروں میں کام کاج کر کے اپنے گھر بار کا خرچہ چلاتی ہیں۔ بچیوں کو پڑھاتی ہیں۔ وہ بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتی ہیں اسی لیے دیر رات تک گھروں میں کام کر کے خرچہ برداشت کرتی ہے لیکن ہر پل محلے والوں کی نظروں میں رہتی ہے جو ہمارے معاشرے کا اصول بھی بن گیا ہے۔

ہم کسی کی مدد کرنے سے رہے لیکن عورتوں کے بارے میں، خصوصاً جو عورت اکیلی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہو، ہم فوراً مذہب کے ٹھیکے دار بن کر اس کی زندگی پر، اس کے چال چلن پر اور اس کے فیصلوں پر اپنے مفت مشورے دینے لگتے ہیں۔ ثریا جانتی ہیں کہ اس قدامت پسند سماج میں خود کو یا بچیوں کو سنبھالنا کتنا مشکل مرحلہ ہے پر اس کے سوا چارہ بھی نہیں۔ ثریا پھر بھی چٹان کی طرح ڈٹی ہوئی ہیں اور ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو سلجھاتی رہی ہیں۔

پانچ اگست کے بعد ثریا گھر سے نہیں نکلی ہیں۔ تب سے پوری وادی ایک بڑی جیل بن گئی ہے۔ وہ ایک روپیہ بھی نہیں کما سکی ہیں۔ وہ بھی اپنی بیٹیوں کے ہمراہ اپنے گھر میں محصور ہیں۔ گھر میں جو اشیائے ضرورت بچی تھیں وہ تقریباً ختم ہوگئی ہیں، زمین زراعت میں جو بھی حصہ تھا وہ شوہر نے اپنے بھائیوں میں تقسیم کی کیونکہ ان کو بتایا گیا ہے کہ بیٹا نہ ہونے کی صورت میں جائیداد بھائیوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ ثریا نے بچیوں کے لے کافی کوشش کی تھی مگر ایک بھی نہیں چلی اور وہ بھی اس معاشرے میں جہاں عورت کا بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے اور بے راہ روی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

کہنے کو ہمارا معاشرہ اسلامی ہے اور ہم خود کو مسلمان کہہ کر فخر بھی محسوس کرتے ہیں، مسجدوں میں پہلی صف میں نماز پڑھنے کو ترجیح  بھی دیتے ہیں مگر نہ ہمارے پاس اب تک بیت المال بنا ہے اور نہ ہی فعال امدادی ادارے جو ثریا جیسی بے سہارا عورتوں کو فاقہ کشی سے بچا سکتے۔ میں نہیں جانتی ثریا کی طرح لاکھوں عورتیں محصور وادی میں کب تک زندہ رہ سکتی ہیں اور کب تک ان ہزاروں بھیڑیوں سے بچ سکتی ہیں جو ان کی بے بسی کا فائدہ اٹھانے کی ہر وقت تاک میں رہتے ہیں اور مختلف ایجنسیوں کو فروخت کرتے ہیں۔

میری پریشانی اُس وقت بڑھ گئی جب ثریا نے چند روز پہلے سول لائنز میں میرے گھر تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی اور کسی طرح سے لینڈ لائن پر مجھ سے بات کرنے کا پیغام بھیجا۔ میں نے ان سے گاؤں کا حال پوچھا تو وہ محتاط انداز میں بولیں: ’اب وہاں کوئی گھن گرج نہیں بس سب زیر زمین چلے گئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں نے پوچھا کہ گھر کا خرچہ کیسے چلتا ہے تو وہ فون پر رو پڑیں: ’بس گھاس پھوس کھا کر زندہ رہتے ہیں۔‘ جب میں نے بیٹیوں کے بارے میں دریافت کیا تو وہ زار و قطار رونے لگیں: ’میری بیٹیاں غیرمحفوظ ہیں، بہت ڈر لگ رہا ہے، گاؤں کے چپے چپے پر بنکر بنائے گئے ہیں، رات کو پٹرولنگ ہوتی ہے اور کئی گھروں میں اندھیرے میں گھس جاتے ہیں۔ چند ہفتے پہلے پڑوس کی ایک لڑکی لاپتہ ہوگی اور نہ جانے وہ۔۔۔‘

میں نے گذشتہ برس بھی ثریا کے شوہر کو کافی سمجھانے کی کوشش کی تھی، گھر کا خرچہ اور لڑکیوں کو احساسِ تحفظ دینے پر زور ڈالا تھا۔ وہ اتنا گھٹیا انسان ہے کہ وعدہ  کرنے کے باوجود بھی ثریا کو ایک روپیہ نہ دیا اور نہ بیٹیوں کی فکر کی۔ ستم یہ کہ گاؤں کا مولوی بھی اس کی طرف داری کرتا ہے اور تین بیٹیاں پیدا ہونے کا قصور وار بھی ثریا کو ٹھہراتا ہے۔

میں نے فون پر ثریا کی ڈھارس بندھائی اور پوچھا کہ ’کوئی بات ہے جو آپ مجھے بتانا چاہتی ہیں؟‘ میں امید کر رہی تھی کہ وہ شاید کچھ روپے مانگیں گی یا بیٹیوں کا ایڈمشن کرانے کا مشورہ یا پھر کسی سے مدد کرانے کے لیے کہیں گی، لیکن معصومیت کا پیکر ثریا کچھ ایسا تقاضا کر رہی ہیں جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

انہوں نے کہا: ’اگر عمران خان یا ان کے فوجی افسر سے آپ کی ملاقات ہو تو میری طرف سے ایک ہی بات کہنا کہ میں جانتی ہوں کہ حالات خطرناک موڑ پر پہنچ گئے ہیں اور جنگ کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ ہم کئی دہائیوں سے پُرتشدد حالات میں پِس چکے ہیں، اب ہم لوگوں میں اور ہمت نہیں ہے۔ بھارت ہمیں روز مار رہا ہے خدارا ایک بار ایٹم بم چلا کر ہمیں اس زندگی سے آزاد کردو تاکہ پورا کشمیر بنجر بن سکے اور بھارت کو ویران یا بنجر زمین مل جائے۔ ایک ہی بار ختم ہونے سے ہمیں روز روز کے اس عذاب سے آزادی ملے گی۔ کسی ماں کو دروازے پر اپنی بچیوں کی پہرے داری نہیں کرنی پڑے گی۔ ہسپتالوں میں چھپ چھپ کر پیلٹ نکالنے کی بھیک نہیں مانگنا پڑے گی اور نہ نوجوان لڑکوں کو تہہ خانوں میں چھپانا پڑے گا۔‘

ثریا رو رو کر بہت کچھ کہے جارہی تھیں اور میں چپ چاپ سن رہی تھی۔ میں ان کا درد کیسے بیان کروں کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ ثریا جیسی لاکھوں عورتیں کشمیر میں کن مشکل حالات سے گزر رہی ہیں اور موجودہ حالات سے بچنے کے لیے شاید اب انہیں  مرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ