ترکی کا حملہ روکنے کے لیے کردوں کا شامی فوج سے معاہدہ

ایس ڈی ایف کا کہنا ہے کہ ترکی کے ساتھ سرحد پر اب شامی فوج تعینات ہو گی تاکہ ’اس جارحاحیت کو پسپا کیا جا سکے اور شامی علاقوں کو ترک فوج اور اس کے کرائے کے جنگجوؤں سے آزاد کرایا جا سکے۔‘

10 اکتوبر کوشامی ڈیموکریٹک فورس  کے اہلکار شام میں کردوں کے خلاف ترکی کے حملے کی جوابی کارروائی کے لیے تیاری کرتے ہوئے (اے ایف پی)

ترکی کے حملے کو روکنے کی آخری کوشش میں، شام میں کردوں کی زیر قیادت فورسز نے صدر بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے جس کے تحت وہ سرحدی علاقوں کو شامی فوج کے حوالے کر دیں گے۔ 

کردوں کی زیر قیادت شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) داعش کے خلاف جنگ میں مغربی ممالک کے اہم اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شام کی ترکی کے ساتھ سرحد پر اب شامی فوج تعینات ہوگی تاکہ ’اس جارحاحیت کو پسپا کیا جا سکے اور شامی علاقوں کو ترک فوج اور اس کے کرائے کے جنگجوؤں سے آزاد کرایا جا سکے۔‘

شامی حکومت اور کرد فورسز کے درمیان معاہدہ گذشتہ ہفتے ترکی کی جانب سے ایس ڈیی ایف کے خلاف بڑے پیمانے پر شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن کے جواب میں کیا گیا ہے۔ آپریشن میں اب تک 60 سے زیادہ شہری مارے جا چکے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ نسلی بنیاد پر لوگوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنے کی جانب قدم ہے۔

ترک مسلح افواج اور شام کے متحدہ باغیوں نے اس آپریشن میں گذشتہ ہفتے تیزی سے کامیابیاں حاصل کی تھیں اور دو سرحدی شہروں کا انتظام سنبھال کر مزید پیش قدمی کرنے کی دھمکی دی تھی۔

ایس ڈی ایف کے کمانڈر جنرل مظلوم کوبانی عابدی نے ترکی کے فوجی آپریشن کو شامی کردوں کے ’وجود کے لیے خطرہ‘ قرار دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایس ڈی ایف اور شامی حکومت کے درمیان معاہدے کا مطلب شام کے کردوں کی جانب سے کئی برس سے جاری رہنے والے خود مختاری کے تجربے کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور اس سے متحارب کرد برادری کے اتحادوں میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔

ترکی ایک عرصے سے ایس ڈی ایف پر حملے کی دھمکی دیتا آیا ہے کیونکہ وہ اسے ترکی میں کردوں کے علیحدگی پسند گروہ کے ساتھ رابطوں کی وجہ سے دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔ علیحدگی پسند کرد ترکی کے ساتھ کئی دہائیوں سے لڑتے رہے ہیں۔ ترک حکومت نے کہا ہے کہ اس کے فوجی آپریشن شروع کرنے کا مقصد شام کی سرحد پر ’محفوظ علاقے‘ کا قیام ہے جو ایس ڈی ایف کے جنگجوؤں سے آزاد ہو۔

لیکن ایس ڈی ایف، جس میں زیادہ تر کرد ملیشیا اور چھوٹا سا عرب دستہ شامل ہے، داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کی اہم اتحادی رہی ہے۔ اس گروپ کے ساتھ شام میں امریکی فوج کی موجودگی ترکی کے حملے میں رکاوٹ رہی ہے۔ تاہم گذشتہ ہفتے صورت حال اس وقت تیزی سے تبدیل ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک اعلان کیا کہ امریکہ ترکی کے شام میں داخلے کے منصوبے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ ایس ڈی ایف نے امریکی پالیسی میں اچانک تبدیلی کو ’پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ کے مترادف قرار دیا۔

ایس ڈی ایف اور شامی حکومت کے درمیان معاہدے کے تحت شام اور ترکی کے درمیان طویل سرحد پر شام کی فوج تعینات ہو جائے گی۔ ایس ڈی ایف نے کہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد ترکی کے مزید حملے کو روکنا ہے۔

تاہم شامی حکومت اور کردوں کے درمیان معاہدے میں اپنے خطرات ہیں۔ شام میں رہنے والے کرد کئی دہائیوں تک حکومتی جبر اور امتیازی سلوک کا سامنا کرتے آئے ہیں۔ اگرچہ خانہ جنگی کی وجہ سے کرد برادری کے لیے حالات میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی نئی آزادیوں کا موقع بھی ملا جو اب دوبارہ ضائع ہو سکتا ہے۔

اس وقت شام کے شمال اور مشرق میں ایس ڈی ایف کا ملک کے تقریباً ایک تہائی علاقے پر کنٹرول ہے۔ 2011 میں خانہ جنگی کے آغاز کے فوری بعد کردوں نے کرد اکثریتی علاقوں کا کنٹرول حکومت سے لے لیا تھا لیکن حکومت کے ساتھ براہ راست لڑائی سے بڑی حد تک گریز کیا۔

اس وقت کے بعد ایس ڈی ایف نے داعش سے آزاد کرائے گئے علاقوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔

گذشتہ چند برس کے دوران ایس ڈی ایف نے اپنے زیر انتظام علاقوں میں متبادل حکومت قائم کر لی تھی جس کا حتمی مقصد ایک ایسی خود مختار انتظامیہ کا قیام تھا جو جنگ کے بعد بھی قائم رہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا