1122: ’تفریح کے لیے کسی کی جان خطرے میں نہ ڈالیں‘

خیبر پختونخوا میں ریسکیو 1122 کو فیک کالز کرنے میں پشاور کے رہائشی سب سے آگے ہیں، 2010 میں ادارے کے قیام سے اب تک صرف پشاور سے ہی 50 لاکھ کے لگ بھگ فیک کالز آ چکی ہیں۔

پشاور کی مصروف ترین سڑک جی ٹی روڈ پر واقع ریسکیو 1122 کے ضلعی دفتر میں وقفے وقفے سے فون کی گھنٹیاں گونج رہی ہیں اور ہیلپ لائن کے اہلکار مدد کے لیے کال کرنے والوں کو معلومات فراہم کرنے میں مصرف ہیں۔ وہ کسی بھی ہنگامی صورت حال کی اطلاع موصول ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ ایک اہلکار کے سامنے پڑے فون کی گھنٹی بجتی ہے اور وہ فون اٹھاتے ہی کہتا ہے: ’ریسکیو 1122 پشاور، بتائیں ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟‘ دوسری جانب سے ایک بچے کی آواز آتی ہے جو ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کہتا ہے: ’انکل مجھے چپس چاہییں۔‘

 ریسکیو اہلکار بچے کو  پیار سے سمجھاتا ہے کہ بیٹا یہاں بے مقصد کال مت کریں اور کچھ دیر اور سمجھا کر فون کو بند کر دیتا ہے۔ امدادی کارروائیوں کے لیے قائم کیے جانے والے ادارے ریسکیو 1122 کے پشاور کے دفتر میں یہ روز کا معمول بن گیا ہے۔ اہلکاروں کے مطابق انہیں روز سینکٹروں ایسی غیر ضروری کالوں سے نمٹنا پڑتا ہے جن کا ان کے کام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، جن میں بچے کھانے کی چیزوں کا تقاضہ کر رہے ہوتے ہیں یا بڑے جھوٹی اطلاع دے کر انہیں پریشان کر رہے ہوتے ہیں۔ 

ریسکیو 1122 کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس ادارے کو مدد کے لیے موصول ہونے والی ’فیک کالز‘ یا غیر ضروری کالز میں سے سب سے زیادہ کالز خیبرپختونخوا کے دارلحکومت پشاور سے کی جاتی ہیں۔ 10 سال سے خیبر پختونخوا میں قائم اس امادادی ادارے کو اب تک صرف پشاور سے ہی 50 لاکھ کے لگ بھگ فیک کالز آ چکی ہیں۔ اس کے بر عکس پنجاب میں، جہاں یہ ادارہ 10 اکتوبر 2004 سے کام رہا ہے، گذشتہ 15 سالوں میں صرف 4086 فیک کالز موصول ہوئی ہیں اور ان میں محض 1766 لاہور سے تھیں۔ 

ریسکیو 1122 کا ادارہ کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کرتا ہے۔ ان ہنگامی حالات میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات، طبی ایمرجنسی یا گھر پر ہونے والا کوئی حادثہ، آگ لگنے کے واقعات، دہشت گردی، بم دھماکے یا فائرنگ، عمارت کا منہدم ہونا اور ڈوبنے کے واقعات میں مدد دینے کی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ تاہم ادارے کے اہلکاروں کو کام میں مشکلات کا سامنا تب کرنا پڑتا ہے جب کالز مذاق اور تفریح کے مقصد سے کال ملاتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خیبرپختونخوا میں ریسکیو 1122 کے ترجمان عروج شیرازی نے ان بے معینی یا فیک کالز کی بڑھتی ہوئی تعداد کی تشویش ناک صورت حال بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اس حوالے سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ایمرجنسی نمبر صرف ہنگامی حالات میں ہی استعمال کرنا چاہیے۔

عروج شیرازی کے مطابق :’زیادہ تر فیک کالز میں غیر ضروری باتیں پوچھی یا بتائی جاتی ہیں جیسے کہ اکثر لوگ کال کر کے کسی فاسٹ فوڈ ریسٹورانٹ کا نمبر یا کھانے کی ترکیب پوچھ لیتے ہیں یا کال ملا کر فون بچوں کو پکڑا دیتے ہیں جس کی وجہ سے امدادی کارروائیاں کرنے والے اس ادارے کو مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ان سے پوچھا گیا کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک وجہ تو نمبر کا آسان ہونا ہے کیونکہ اسے بچے بھی آسانی سے ملا سکتے ہیں جبکہ ہنگامی حالات کے حوالے سے شعور نہ ہونا بھی فیک کالز کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ان کے مطابق: ’کچھ لوگ کال کر کے فوراً سے کال کاٹ دیتے ہیں جو کہ ڈراپڈ کال کہلاتی ہے لیکن ان کالز کی وجہ سے بھی ریسکیو 1122 کا نمبر مصروف ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی لوگ ایمرجنسی کے باوجود رابطہ نہیں کر پاتے۔‘

ریسکیو 1122 کی ہیلپ لائن کے اہلکار ارشد نے بتایا :’دن کے اوقات میں زیادہ تر بچوں کی جانب سے کال کی جاتی ہے جبکہ رات کے اوقات میں خواتین کال کر کے گپ شپ لگانے کی کوشش کرتی ہیں تو ہم انہیں بتاتے ہیں کہ یہ سرکاری نمبر ہے اور اس کو ذاتی طور پر استعمال کرنے پر پابندی ہے۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو بتائیں ورنہ ہمارا وقت ضائع نہ کریں۔‘

 ارشد کا کہنا تھا کہ کئی خواتین ان سے ذاتی نمبر کا تقاضہ بھی کرتی ہیں لیکن وہ اپنے فرض پر توجہ دیتے ہوئے ایسے نمبر بلاک کر دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’اکثر لوگ کال کر کے کہتے ہیں جلدی پہنچیں آگ لگ گئی ہے۔ ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے جب جگہ کی تفصیل پوچھتے ہیں تو کہا جاتا ہے ’چولہے پر‘۔‘

عروج شیرازی کے مطابق ریسکیو اہلکاروں کی جانب سے بلاک کیے جانے والے نمبرز خود کار نظام کے تحت 24 گھنٹوں میں کھول دیے جاتے ہیں تاکہ کسی ہنگامی صورت حال میں ان نمبر سے آنے والی کالز موصول ہو جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی بار ایسی کالز بھی موصول ہوتی ہیں جن میں کسی حادثے کے بارے میں اطلاع دی جاتی ہے لیکن جب اہلکار اس جگہ پہنچتے ہیں تو کوئی ہنگامی صورت حال نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی حادثہ ہوا ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فیک کالز پر سزا دینے کے حوالے سے اداروں میں مشاورت جاری ہے اور جلد ہی قانون سازی کر کے اس حوالے سے اقدامات لیے جائیں گے۔

 انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ ریسکیو 1122 کے نمبر کو صرف اسی صورت استعمال کیا جائے جب اس کی ضرورت ہو۔ ان کا کہنا تھا:’ قرآن کریم کی آیت کے مفہوم کے مطابق ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔ براہ مہربانی دو منٹ کی تفریح کے لیے کسی انسان کی جان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان