روس کی بلیک مارکیٹ میں بچوں کی فروخت کا انکشاف

بدعنوان ایجنٹوں کے ذریعے بچوں کے خریدار، فروخت کنندگان سے مربوط رابطوں کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہیں۔

روس کے آڈاپشن سسٹم کو بدعنوانی اور یتیم بچوں کی ایک بڑی تعداد کے باعث طویل عرصے سے دنیا میں سب سے زیادہ غیر محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ (اے ایف پی)

روسی شہری پاول سریچیف کی سوشل میڈیا پر موجود پروفائل سے ہی حکام کی آنکھیں کھل جانی چاہیے تھیں۔

ایک 43 سالہ تنہا شخص، جن کے سوشل میڈیا پر محض درجن بھر احباب سے ہی رابطے ہوں، جو بچوں سے جنسی خواہش کی رغبت کی بیماری میں مبتلا ہو اور جن کو ’آفر، ریسیو چلڈرن‘ جیسے گروپس میں دلچسپی ہو، ان کی بچے گود لینے کی نیت کیسے ٹھیک ہو سکتی تھی؟

لیکن جب پاول نے رشین آڈاپشن ایجنسی (بچوں کو گود لینے میں مدد دینے والے روسی ادارے) سے پوچھا کہ وہ بچے گود لینے کے لیے سماجی چھان بین کے مرحلے سے کیسے بچ سکتے ہیں تو ایجنسی نے ان سے سوال کرنے کی بجائے اس حوالے سے مختلف آپشنز کی ایک فہرست تھما دی۔

آڈاپشن ایجنسی نے ان کی معاشرتی خدمات میں زچگی وارڈز اور ججوں کے ساتھ مضبوط تعلقات کا حوالہ دیا جس کے بعد وہ پانچ ہزار پاؤنڈ کے برابر کمیشن ادا کرنے کے بعد نوزائیدہ بچہ حاصل کر سکتے تھے۔

شکر ہے کہ پاول سریچیف کوئی حقیقی انسان نہیں تھے بلکہ وہ روسی تحقیقاتی ادارے ’اِنسائیڈر‘ کے لیے صحافیوں کی جانب سے تخلیق کیا گیا غیر حقیقی ’شیطانی کردار‘ تھے تاکہ اس مکرہ دھندے کا پردہ فاش کیا جا سکے۔

تحقیقاتی ادارے کی نئی رپورٹ میں چونکا دینے والی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ روس میں بچوں کو گود لینے کے نظام کو کس حد تک غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی معاشرے میں کیسے بلیک مارکیٹ کا شرمناک دھندہ قائم کیا گیا ہے جہاں بدعنوان ایجنٹوں کے ذریعے بچوں کے خریدار، فروخت کنندگان سے مربوط رابطوں کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ یہ غیر قانونی تجارت کس پیمانے پر ہو رہی ہے تاہم شواہد اس جانب نشاندہی کرتے ہیں۔ ہر ماہ مشہور روسی سرچ انجن کے ذریعے صرف ماسکو میں 85 ہزار سے زیادہ لوگ ’بائے آ چائلڈ‘ (ایک بچہ خریدیں) سرچ کرتے ہیں۔

کچھ لوگ یقیناً بچہ گود لینے کے قانون میں حائل پیچیدگیوں اور تین سالہ مدت کے سرخ فیتے کو ختم کرنے مطالبہ کرتے ہیں۔ اس میں خواتین کو اکثر مایوس کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس سے انتہائی ہولناک اور ناجائز استعمال کے مواقع بھی میسر آ سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس خرید و فروخت میں بچے کی قیمت خطے اور بچے کی خصوصیات پر منحصر ہوتی ہیں۔ روسی فیڈریشن کے زیادہ پسماندہ خطوں کے غیر سلاوی بچوں کی قیمت کم سے کم ہوتی ہے جبکہ ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ کے سلاوی نسل سے تعلق رکھنے والوں بچوں کی قیمت سب سے زیادہ ہوتی ہے-

عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ڈیل میں ایک بچہ صرف پانچ ہزار روبل (60 پاؤنڈ) میں فروخت ہوا۔

اس مکروہ کاروبار کو آشکار کرنے کے لیے صحافیوں کو معاشرتی خدمات کی چھان بین کے لیے سکیموں کی پیشکش کی گئی جنہوں نے پاول سریچیف جیسے مشتبہ نظر آنے والے خیالی مرد کو تخلیق کیا جس کو ایک لاوارث بچے کو گود لینے کا موقع مل رہا تھا۔

خواتین کے لیے دوسرے آپشنز تجویز کیے گئے جن میں زچگی وارڈ میں بچوں کو بدعنوان نرسوں کی نگاہوں کے سامنے تبدیل کرنا شامل تھا۔

ایجنٹوں کے مطابق اس میں پکڑے جانے کا ڈر بہت کم ہے۔ نظام کے تمام حصوں میں بدعنوان لوگ ان کے لیے کام کر رہے ہیں جبکہ ڈی این اے ٹیسٹ بھی اس تجارت کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

روس کے آڈاپشن سسٹم کو بدعنوانی اور یتیم بچوں کی ایک بڑی تعداد کے باعث طویل عرصے سے دنیا میں سب سے زیادہ غیر محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔

حالیہ برسوں میں حکام نے بچوں کی فلاح و بہبود اور حفاظت کو بہتر بنانے کے حوالے سے کئی اقدامات متعارف کرائے ہیں لیکن بچوں کی سمگلنگ میں ملوث مجرموں کو کم ہی سزا سنائی جاتی ہے۔ گذشتہ آٹھ سالوں میں صرف تین درجن ہی ایسےکیسز سامنے آئے ہیں جن میں مجرموں کو سزا دی گئی ہو۔

بچوں کی حفاظت کے لیے کریملن کے نقطہ نظر پر تنقید کرنے والے بھی 2013 میں بدنام زمانہ قانون ’ڈیما یاکولیف‘ کو متعارف کرانے پر توجہ دلاتے ہیں۔

یہ قانون ایک روسی بچے کے نام سے منسوب ہے جو امریکہ میں اپنے گود لینے والے والد کی جانب سے حادثاتی طور پر کار میں چھوڑ دیے جانے کے باعث ہلاک ہوگیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ میں بچے گود لینے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

سینکڑوں بچوں کو گود لیے جانے کے عمل کو آخری لمحے میں منسوخ کردیا گیا تھا جس سے بچوں اور ان کو اپنانے کے خواہش مند خاندانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بہت کم افراد نے کریملن کے اس بیان پر یقین کیا کہ انہوں نے یہ فیصلہ صرف بچوں کے مفاد کے لیے کیا تھا لیکن درحقیقت اس کے پس منظر میں جغرافیائی سیاسی محرکات تھے۔

بظاہر ناجائز آڈاپشن کے کاروبار سے وابستہ ایجنٹ کا کہنا تھا کہ یہ وہ قانون ہے جسے وہ کبھی نہیں توڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’اصولی طور پر‘ وہ کبھی بھی غیر ملکیوں کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا