پہلگام سانحہ ایک بےحد افسوسناک واقعہ تھا جس پہ شدید دکھ پہنچا۔ انسانی جان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں۔
کسی ملک کے اندر، جب کسی اقلیت کو دبایا جاتا ہے، توسیع پسندانہ عزائم دل میں رکھ کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور طاقت کے بل پہ انسانی حقوق پامال کیے جاتے ہیں تو ردعمل آتا ہے۔
یہ تماشا تاریخ نے بارہا دیکھا ہے۔ خدا کسی قوم کو اس تکلیف میں نہ ڈالے جس میں کشمیری مبتلا ہیں۔ ناانصافی ہوتی ہے تو ردعمل آتا ہے۔ ردعمل بے سمت بھی ہوتا ہے اور سفاک بھی مگر اس کی ذمہ دار وہ طاقتیں ہوتی ہیں جنہوں نے ظلم کی بنا ڈالی۔
ظلم بچے جنتا ہے اور یہ بچے دیکھنے میں بہت کریہہ اور بھیانک ہوتے ہیں۔ دیو مالائی کہانیوں کے ولن کی طرح یہ بچے مزید ظلم کو جنم دیتے ہیں اور اس طرح یہ ’چین ری ایکشن‘ جاری رہتا ہے۔
جب یہ ظلم جاری رہتا ہے اور ہم سب خاموشی سے اسے بڑھتے دیکھتے رہتے ہیں پھر ایک روز ظالم کا جی چاہتا ہے کہ مزید ظلم کیا جائے اور تب شروع ہوتا ہے یدھ۔
اب مظلوم تو پہلے ہی کمزور ہے اس سے لڑ کے کیا مزہ آئے تو اپنی سخت گیری، اپنی ناکامی کو تسلیم کرنے اور میز پہ بیٹھ کے مذاکرات کر کے معاملات سلجھانے کی بجائے کسی دوسری جگہ محاذ کھولنے کی دھمکیاں دینا مودی جی جیسے زیرک سیاست دان کی ہی ذہانت ہو سکتی ہے۔
مودی تو بھیا مودی ہے، ان مہاشے کے دور میں تاج محل اکھیڑنے اور اورنگ زیب کی قبر کھودنے کے نعرے لگوائے جا رہے ہیں تو جو نہ ہو جائے کم ہے۔ رہی بات سندھ طاس منصوبے سے نکلنے کی تو صاف سی بات ہے کہ بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے، زیادہ بارش ہو گی تو زیادہ پانی آئے گا۔ زیادہ پانی آئے گا تو پانی کیسے روکو گے؟ اور خشک سالی کے مہینوں میں پانی دو گے بھی تو کہاں سے دو گے؟
یہ تو ہے پانی کی لڑائی، باقی رہی جنگ، تو جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی، کیونکہ عورتیں بہت سمجھدار ہوتی ہیں انہیں پتہ ہوتا ہے کہ جنگ میں کچھ نہیں رکھا۔
یہ بات وہ عورتیں جانتی ہیں جنہوں نے ایک انسانی جرثومے کو سینچ کر ایک وجود بنایا اسے پالا، بڑا کیا، اس لیے نہیں کہ ایک دماغی کجی کا شکار کوتاہ بین نظام اسے موت کے گھاٹ اتار دے۔
ہم عورتیں اس لیے اولاد پیدا نہیں کرتیں کہ وہ کسی پہ گولی چلائیں یا کسی کی گولی کھائیں۔ پڑھنے لکھنے والے لوگ، شعر کی، نغموں کی، رنگوں کی زبان میں بات کرنے والے ہم بہادر لوگ کسی بزدل کے کہنے پہ مار دھاڑ کی بات کبھی نہیں کرتے۔ مگر فیض کے مصرعوں پہ پابندی لگانے والوں نے جاوید اختر کو بھی ایسا بدلا کہ پہچانے ہی نہیں جاتے۔
پاکستان میں جاوید اختر کی شاعری کے مداحوں نے ان کو ہمیشہ سراہا، بلایا، وہ بھی بڑے شوق سے آتے تھے۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ پھر جانے ان کو کیا ہوا کہ ان کے الفاظ زہر میں بجھے ہوئے تیر بن گئے اور محبت کرنے والے نہتے مداحوں کے دل چیر گئے۔ یہ نفرت جو جاوید اختر صاحب نے انڈیلی یکطرفہ تھی، یہاں نہ تو ان کے آنے پہ کسی کو اعتراض تھا اور نہ ہی کسی کو یہ لگا کہ ہم وہاں جاتے ہیں تو ہمیں بیٹھنے کا موقع دیے بغیر ملک چھوڑنے کا کہہ دیا جاتا ہے۔ ہمارے دل بہت بڑے ہیں اور ظرف تو بہت ہی بڑے ہیں۔
چند ماہ بھی نہیں گزرے کہ میں اور جاوید اختر صاحب دبئی میں ایک سیشن میں اکٹھے تھے، دل کھٹا تھا، بات تک کرنے کو جی نہ چاہا، مگر مروت کے تقاضے نبھائے۔ سیشن ختم ہوتے ہی نکل آئی۔ کوئی بھی تعلق واقعی یکطرفہ نہیں ہوتا۔ میرے ایک ڈرامے کا او ایس ٹی ایک انڈین شاعر نے لکھا انڈین مغنیہ ہی نے گایا۔ یہ تو میرا تجربہ ہے اسی طرح درجنوں لوگ یہاں کام بھی کرتے ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جاوید اختر صاحب خود بھی یہاں آتے ہیں۔ کس چاہ سے ملتے ہیں کیا پیار جتاتے ہیں، ہم کو بھی بلاتے ہیں۔ اعزازیہ بھی یقیناً پاتے ہیں اور سفر خرچ بھی ملتا ہو گا۔ تحفے تحائف بھی ملتے ہوں گے تو اگر ہمارے اداکار وہاں گئے تو یہ یکطرفہ تعلق نہیں ہے۔
یوں بھی جاوید صاحب میلہ لوٹنے کے لیے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔ ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لینے والا شخص خود ہی مسخرہ لگے گا۔ ہم شاعر ادیب، محبت کی زبان بولنے والے ہیں، اس طرح کی باتیں نہ تو ہمیں زیب دیتی ہیں اور نہ ہی ہمیں کرنی چاہیں۔
مجھے یاد ہے کہ شبانہ اعظمی صاحبہ نے بڑی محبت سے میرے ڈرامے ’آخری سٹیشن‘ کے او ایس ٹی کی نظم تحت اللفظ میں پڑھی تھی۔ یہ ویڈیو یو ٹیوب پہ آج بھی موجود ہے۔ شبانہ صاحبہ شاید اتنی حسین کبھی نہیں لگیں جتنی اس ویڈیو میں لگ رہی ہیں۔
قصہ مختصر، نفرتوں کے سلسلے شاید یکطرفہ ہوں گے، محبتوں کے سلسلے دو طرفہ ہی ہیں۔ جاوید صاحب جو بھی کہیں، سچائی تبدیل نہیں ہو گی۔
باقی رہی بات جنگ کی، تو ابھی کووڈ ختم ہوا ہے، گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج ہم دونوں ملکوں کو ایسا مسئلہ ہے جو جنگ سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ جس پانی کی دھمکی دے رہے ہو وہی پانی گھیر کے مارنے کو ہماری ہی بنیادوں میں مر رہا ہے۔
انڈیا کی طرف سے اعلان جنگ سن کے یقینا آپ کو بھی وہی لطیفہ یاد آیا ہو گا جس میں مراثی کے بچے قریب المرگ باپ کے سرہانے بیٹھے کہہ رہے تھے کہ فارغ تو بیٹھے ہیں، جب تک ابا مر نہیں جاتا پولی پولی ڈھولکی ہی بجا لیتے ہیں۔
تو جب تک پانی مر نہیں جاتا اور مار نہیں دیتا، جنگ نہ کر لیں؟ شرم کرو جنگ کی باتیں کرنے والو! محبت کرو اس سے پہلے کہ فطرت تم سے جنگ پہ اتر آئے، اس وقفے کو غنیمت جانو۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔