اسرائیلی میڈیا نے ہفتے کو رپورٹ کیا ہے کہ غزہ پر وسیع حملے سے قبل اسرائیل نے ہزاروں ریزرو فوجیوں کو طلب کر لیا ہے جب کہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے فائربندی میں ثالثی کروانے والے ملک قطر پر تنقید کی ہے۔
متعدد اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فوج نے ریزرو فوجیوں کو احکامات بھیجنا شروع کر دیے ہیں تاکہ وہ ان اہلکاروں کی جگہ لے سکیں جو جبری طور پر بھرتی کیے گئے یا فعال ڈیوٹی پر اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے میں تعینات ہیں۔
ریزور فوجیوں کو طلب کرنے کا مقصد ان فوجیوں کو دوبارہ غزہ بھیجنا ہے۔
فوج کے ترجمان نے ان رپورٹس کی نہ تصدیق کی اور نہ تردید، تاہم اے ایف پی کے صحافیوں کے رشتے داروں کو بھی طلبی کے احکامات موصول ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق سکیورٹی کابینہ کا اجلاس اتوار کو ہونے والا ہے جس میں غزہ میں فوجی کارروائی کے دائرہ کار کو وسعت دینے کی منظوری دی جائے گی۔
اسرائیل نے 18 مارچ کو غزہ بھر میں بڑے پیمانے پر کارروائیاں دوبارہ شروع کیں، ایسے وقت میں جب دو ماہ کی فائر بندی کے مستقبل پر تعطل برقرار تھا۔ اس فائر بندی نے اسرائیلی حملوں کو بڑی حد تک روک دیا۔
قطر، جہاں حماس کا سیاسی دفتر قائم ہے، نے جنوری میں نافذ ہونے والی فائر بندی کے معاہدے میں امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر ثالثی کی تھی۔ تاہم گذشتہ چند ہفتے سے نئے معاہدے کی کوششیں تعطل کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نتن یاہو نے گیس سے مالا مال اس خلیجی ریاست پر ’دوغلی باتوں کے ذریعے دونوں طرف کھیلنے‘ کا الزام لگایا۔ ایکس پر پوسٹ میں نیتن یاہو نے کہا کہ قطر کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ’تہذیب کے ساتھ ہے یا حماس کی ظلم کے ساتھ۔‘
اسرائیلی وزیراعظم، جو اپنے انتہائی دائیں بازو کے حمایتیوں کے دباؤ میں ہیں اور جن کی حمایت کے بغیر ان کی اتحادی حکومت ختم ہو سکتی ہے، غزہ میں دوبارہ شروع ہونے والی کارروائی کے بعد سے حملے جاری رکھنے کے مطالبات میں مزید شدت لا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیل اس درست جنگ کو درست طریقوں سے جیتے گا۔‘
قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ان ’اشتعال انگیز‘ بیانات کو مسترد کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ یہ ’سیاسی اور اخلاقی ذمے داری کے بنیادی ترین اصولوں پر بھی پورا نہیں اترتے۔‘
اسرائیل نے دو مارچ سے غزہ میں تمام امدادی ترسیلات پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جس پر اقوام متحدہ کے اداروں نے انسانی بحران کے خطرے سے خبردار کیا۔