تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد

عام لوگوں کو یہ سب کچھ جنتر منتر لگے گا مگر ملک و قوم کو تباہ حال بنائے بغیر نئے پاکستان کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ اور اگر کسی وجہ سے یہ فلسفہ کارگر ثابت نہ ہوا اور بربادیاں کامیابیوں میں تبدیل نہ ہوئیں تو قوم کم از کم یہ تو کہہ سکے گی کہ خان آیا تھا۔

لوگ ٹرکوں کے پیچھے بنی ہوئی ایوب خان کی بوسیدہ تصاویر کو ہٹا کر عمران خان کی نئی تصویر لگائیں گے جن کے نیچے جلی حروف میں لکھا ہو گا۔ تیری یاد آئی  تیرے جانے کے بعد ۔

وزیراعظم عمران خان ایک شاندار انسان ہیں۔ ان کا فلسفہ سیاست گہرا اور غیر معمولی دانش پر مبنی ہے۔ عقل و خرد سے عاری، جہالت سے آلودہ ذہن ان کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جائے اور وہ تمام بے کار نعرہ باز حلقے جو ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں ان کو خاموش کروایا جائے۔

ویسے بھی یہ کیا بدتہذیبی ہے کہ دو سال پہلے کہہ رہے تھے: ’عمران کو لاؤ، پاکستان بچاؤ‘ پھر حکومت میں محض چھ ماہ گزارنے کے بعد یہ کہنے لگے: ’عمران کو سمجھاؤ، پاکستان بچاؤ‘۔ اسے بھی تبدیل کرکے یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ ’عمران کو چلاؤ، پاکستان بچاؤ‘ اور اب قسمت کے ڈسے ہوئے’عمران ہٹاؤ، پاکستان بچاؤ‘ جیسے فضول نعرے ترتیب دے رہے ہیں۔

دنیا کے کس ملک میں نئی نویلی حکومت کے بارے میں مزاج ایسے تبدیل کیے جاتے ہیں؟ حکومت بنانے، چلانے اور ہٹانے کے کچھ آداب ہیں۔ جن کو جاننے کے لیے جو دانش درکار ہے وہ ان ناسمجھوں میں موجود نہیں۔ اب آیئے اس وضاحت کی طرف جو موجودہ ملکی صورت حال کو کھول کر آپ کے سامنے رکھ دے گی اور اگر آپ بھی احتجاجی قبیلے میں شامل ہیں تو آپ کی سوچ یہ پڑھنے کے بعد بدل جائے گی۔ ہر طرف یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم اپنے سامنے حالات کو بری طرح بگڑتے دیکھنے کے باوجود سنبھالنے کا بندوبست کیوں نہیں کر پا رہے؟ جواب یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر رہے ہیں۔

ان کا فلسفہ یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو اوپر جانے کے لیے پہلے نیچے جانا پڑتا ہے۔ تنزلی کے بغیر ترقی اور پسپائی کے بغیر لمبی چھلانگ ممکن نہیں۔ قوموں کی تربیت کرنے کے لیے ان کو کٹھن مراحل سے گزارنا پڑتا ہے۔ جب تک سست اور کاہل، جسم اور اذہان خوفناک حالات کا سامنا نہیں کریں گے تب تک وہ چستی اور چابک دستی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ معیشت کی بگڑتی ہوئی حالت کی وجہ بھی یہ نادر نظریہ ترقی ہے۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ جب لوگوں کی آمدن کم ہوگی، ان کے بچے بھوک سے بلبلائیں گے، وہ دوائیوں کے لیے ترسیں گے اور انصاف کے لیے ہر در سے ٹھوکر کھائیں گے تو ان میں حالات کو درست کرنے کا ایک ایسا قومی جذبہ جاگے گا جس کو کسی ٹی وی اینکر یا کرائے پر حاصل کیے ہوئے تجزیہ کار کے بھاشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

کروڑوں کی تعداد میں تباہ حال پاکستانی جب اپنی جان کو بچانے کے لیے 24 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہوں گے تو ملک میں ایک اجتماعی پیداواری انقلاب برپا ہو جائے گا۔ وہ کاروباری طبقہ جو حکومت سے ہر وقت سہولت کا طلب گار رہتا ہے کسی نہ کسی طریقے سے خود کام کرنے کا ارادہ باندھ لے گا۔ فیسوں میں اضافے کی وجہ سے ماں باپ بچوں کو گھر پر خود سے پڑھائیں گے۔ اس سے ہر گھر میں تعلیم کی روشنی پھیلے گی۔ علاج معالجے کی سہولت ہاتھ سے نکلنے کے بعد لوگ اپنے علاج اور صحت پر خود توجہ دیں گے۔

اس کی مثال ڈینگی کی وبا کے حوالے سے دی جا سکتی ہے۔ جب یہ وبا پھیلی، عوام مرے، ہسپتالوں میں ناقص انتظامات ہوئے تو پھر ہر کسی نے گھر پر علاج کروانے کا اہتمام کر لیا۔ بیماروں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے شفا کے لیے مانگی دعاؤں کی تعداد میں اضافہ کیا اور اس طرح آہستہ آہستہ ڈینگی ناکام ہو کر واپس چلا گیا۔ ایسا ہی معاملہ پولیو کے ساتھ ہوا۔ 2017 میں پولیو کے صرف آٹھ کیس تھے۔ بابر بن عطا نامی ایک شخص کو وزیراعظم کی ایما پر پولیو کے خاتمے کا خصوصی نمائندہ بنایا گیا۔ اس نے ایک سال میں ہی کایا پلٹ دی۔ آخری خبریں آنے تک 76 کیسز سرکاری طور پر مانے جا چکے تھے۔

بابر بن عطا کا کام ختم ہو گیا۔ اس طرح حکومت نے دنیا بھر میں پاکستان میں پولیو کی طویل المدت مصیبت کا موثر انداز سے ڈھنڈورا پیٹا۔ اب دنیا وہ تمام وسائل مہیا کرے گی جن کو پہلے حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو تگ و دو کرنی پڑتی تھی۔ اس کے علاوہ 76، 78 پولیو کے کیسز میں جب بتدریج کمی آئے گی تو ہر طرف اس کامیابی کو زیادہ تحسین اور تعریف ملے گی۔ سات، آٹھ کیسز کو ختم کرنا کوئی کمال نہیں۔ اصل معرکہ 76، 78 کیسز میں کمی لانا ہے۔

آگے جانے کے لیے پیچھے جانا پڑتا ہے۔ اس کی ایک اور مثال فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی دھمکی ہے۔ ہمارے لائحہ عمل کے عین مطابق پہلے ملک گرے لسٹ میں گیا اور اس کے بعد ایک سال بڑے بڑے ممالک کو زچ کرنے کے بعد اب بلیک لسٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس کو بھی سمجھیے۔ وائٹ سے گرے اور گرے سے بلیک لسٹ کی جانب سفر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اندر کی سیاستیں اور پاکستان کی جہدوجہد ان تمام پہلوؤں کو عوام تک صرف اسی صورت میں پہنچایا جا سکتا تھا کہ جب بلیک لسٹ کے تحت لگنے والی پابندیاں ملک کے سر پر تلوار کی طرح لٹکنے لگیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اہم بین الاقوامی امور کے بارے میں عوام کی معلومات میں اضافہ اس سے بہتر انداز میں نہیں کیا جا سکتا۔ بظاہر خطرناک صورت حال کا ایک اور پہلو ان کاوشوں سے متعلق ہے جو ملک کا ہر ادارہ اب اگلے 122 دنوں میں کرے گا۔ ہمارا مزاج ہے کہ جب تک افتاد سر پر کھڑی نہیں ہو جاتی ہم اپنی اصلاح کا بندوبست نہیں کرتے۔ اب بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کے خطرے کے پیش نظر وہ سب کام کرنے پڑیں گے جن سے ہم پانچ چھ سالوں سے صرفِ نظر کر رہے تھے اور اگر خدا نخواستہ یہود و ہنود کی سازش نے ہم پر بلیک لسٹ کا امتحان ڈال دیا تو ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ایک نئی جہدوجہد کا آغاز کر پائیں گے۔ قوم کا کردار پختہ ہوگا اور ہماری یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ پاکستان بدترین منصوبہ بندی کا ہدف ہے جس کی دشمن قوتیں کبھی ہماری سرزمین کو زک پہنچانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔

کشمیر پر بھی یہی عمرانی فلسفہ لاگو ہوتا ہے۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ آپ کو اگر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان نے کشمیر کو اپنے ساتھ ضم کرکے اسلام آباد کو چت کر دیا ہے تو یہ مت بھولیے کہ اس میں بھی ہماری بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگر پانچ اگست کی واردات نہ ہوتی تو کیا ہم کشمیر کو وہ اہمیت دیتے جو آج کل دے رہے ہیں؟ سینکڑوں بیانات، درجنوں ٹویٹس، غیر ملکی دورے اور عمران خان کے دائیں بازو پر کالا احتجاجی ربن، کیا یہ سب کچھ ممکن تھا؟ اور پھر اہم ترین فیصلے کرنے میں بھی پانچ اگست کے واقعات نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینا، جے یو آئی کے مارچ کو روکنا، مقتدر حلقوں کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو کشمیر کے نام پر بلا کر ایک میز پر بٹھانا، یہ سب کچھ پانچ اگست کے اقدامات کے بعد ہی ممکن ہوا۔

اور ویسے بھی یہ قوم ایک جنگ کی تلاش میں تھی۔ تاکہ یہ اپنے چھپے ہوئے اوصاف جو اس کے اصلاف کی دین ہے، دوبارہ سے حاصل کر سکے۔ اب کشمر کے دھچکے کے بعد بھارت سے جنگ کے امکانات واضح ہو گئے ہیں۔ اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو سب شہید ہوں گے جو کہ ایک عظیم درجہ ہے اور اگر کسی وجہ سے بھارت سے ہاتھ ملانا پڑا تو امن کا ایک نیا دور شروع ہوسکے گا جو اپنے تئیں ایک بہترین کامیابی ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ ایتھوپیا کے وزیراعظم ایبی احمد کی طرح نوبیل انعام ہی مل جائے۔ اگر ایسا ہوا تو ملک کا نام مزید روشن ہو گا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر پانچ اگست نہ ہوتا تو کشمیری جہدوجہد سست بھی پڑ سکتی تھی اب اس کا کوئی امکان نہیں۔

 اس کو کہتے ہیں گہری سفارت کاری۔ اس کا نام ہے دور کی کوڑی لانا۔ یہ ہے وہ شاندار فلسفہ جو ایک شاندار سوچ رکھنے والا فلسفی قائد ہی اپنا سکتا ہے۔ عام لوگوں کو یہ سب کچھ جنتر منتر لگے گا مگر ملک و قوم کو تباہ حال بنائے بغیر نئے پاکستان کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ اور اگر کسی وجہ سے یہ فلسفہ کارگر ثابت نہ ہوا اور بربادیاں کامیابیوں میں تبدیل نہ ہوئیں تو قوم کم از کم یہ تو کہہ سکے گی کہ خان آیا تھا۔ لوگ ٹرکوں کے پیچھے بنی ہوئی ایوب خان کی بوسیدہ تصاویر کو ہٹا کر عمران خان کی نئی تصویر لگائیں گے جن کے نیچے جلی حروف میں لکھا ہو گا۔ تیری یاد آئی  تیرے جانے کے بعد۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ