کہیں بھی احتیاطی حراست غیرمعینہ مدت کے لیے نہیں ہوتی: عدالت

پشاور ہائی کورٹ نے سابق قبائلی علاقوں (فاٹا اور پاٹا) کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد وہاں فعال حراستی مراکز سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں کئی سوال اٹھائے ہیں۔

لاپتہ افراد کے رشتہ دار یکم اکتوبر، 2015 کی اس تصویر میں پشاور ہائی کورٹ کے باہر احتجاج کر رہے ہیں(اے ایف پی)

پشاور ہائی کورٹ نے وفاق اورسابق قبائلی علاقوں (فاٹا اور پاٹا) کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد وہاں فعال حراستی مراکز کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے صوبے کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو ان حراستی مراکز کا انتظام سنبھالنے کی ہدایت کی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نے 17 اکتوبر کو ایڈووکیٹ شبیر حسین گگیانی کی پٹیشن پر یہ فیصلہ سنایا تھا۔

عدالت نے انسپکٹر جنرل پولیس کو یہ حکم بھی دیا کہ زیر حراست ہر شخص کے کیس کی جانچ پڑتال کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور جن کے خلاف کوئی کیس نہیں انہیں رہا کر دیا جائے جبکہ جن کے خلاف کیس درج ہیں انہیں متعلقہ عدالتوں میں بھجوا دیا جائے۔ 

قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کے زیر انتظام ان حراستی مراکز میں موجود دو قیدیوں کے وکیل ایڈووکیٹ شبیر حسین گگیانی نے کے پی ایکشن آرڈیننس 2019، کے پی (سابق فاٹا) میں جاری قوانین ایکٹ 2019 اور کے پی (سابق پاٹا) میں جاری قوانین ایکٹ 2018 کو چیلنج کیا تھا۔

درخواست میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ 2011 کے قواعد و ضوابط کے تحت قائم کر دہ تمام حراستی مراکز کو غیر آئینی قرار دیا جائے اور قانون کے مطابق مقدمہ چلانے کے لیے تمام قیدیوں کو متعلقہ عدالتوں کے حوالے کیا جائے۔

ان کا موقف تھا کہ آئین میں کی گئی 25ویں ترمیم کے بعد قبائلی اضلاع کے عوام کے ساتھ ملک اور صوبے کے دیگر عوام سے مختلف رویہ نہیں رکھا جاسکتا۔

ایڈووکیٹ گگیانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے تمام حراستی مراکز کو ’سب جیل‘ قرار دے کر آئی جی کی تحویل میں دے دیا ہے اور ان مراکز میں قید ملزمان کے مقدمات کو متعلقہ عدالتوں میں بھجوانے کا حکم دیا ہے ،جہاں قانونِ شہادت کی رُو سے ان کے خلاف الزامات پر سماعت کی جائے گی۔

20 جولائی 2011 کو صوبائی وزیر داخلہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت ایسے نو مراکز جہاں ہزاروں کی تعداد میں مشتبہ عسکریت پسندوں کو قید کیا گیا تھا، صوبے کے زیر انتظام حراستی مراکز قرار پائے تھے۔ 

اسی قسم کا ایک حکم نامہ 12 اگست 2011 کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا نے جاری کیا تھا، جس کے تحت تقریباً 34 حراستی مراکز نوٹیفائی کیے گئے تھے۔

اس حکم نامے سے قبائلی علاقوں کے ساتوں اضلاع میں موجود فرنٹیئر کور اور پولیٹیکل ایجنٹوں کے زیر انتظام لاک اپس حراستی مراکز بن گئے تھے۔

ہائی کورٹ کے سامنے ایک اہم سوال یہ تھا کہ جن ریگولیشنز کو وفاقی حکومت نے وضع کرکے قبائلی علاقوں میں نافذ کیا تھا، انھیں صوبے میں شامل علاقوں میں کیسے جاری رکھا جاسکتا ہے؟

یہ سوال پاکستانی دستور کی وفاقیت کے تناظر میں نہایت اہم ہے۔ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ مذکورہ ریگولیشنز کو صوبائی قوانین کے ذریعے تسلسل دینا قانونی لحاظ سے انتہائی غلط تھا۔

دوسرا اہم مسئلہ جس پر ہائی کورٹ نے بحث کی ، وہ یہ تھا کہ سابقہ پاٹا کے لیے مذکورہ قانون جنوری 2019 میں اور سابقہ فاٹا کےلیے مذکورہ قانون مئی 2019میں نافذ کیا گیا جبکہ 25ویں آئینی ترمیم کا نفاذ مئی 2018سے ہی ہوا ہے ۔

 سوال یہ ہے کہ مئی 2018سے جنوری 2019تک سابقہ پاٹا میں اور مئی 2019تک سابقہ فاٹا میں لوگوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کس قانون کے تحت قید کیا تھا ؟ اس قید اور دیگر فیصلوں کا قانونی جواز کیا تھا؟

اس آرڈیننس پر دیگر اعتراضات کے علاوہ ایک اہم اعتراض یہ اٹھا کہ اگر اس کا اجرا اس بنا پر ضروری تھا کہ مسئلہ پاکستان کے دفاع اور تحفظ کا تھا تو وفاقی فہرست میں شامل ہونے کی بنا پر اس مسئلے پر آرڈیننس صدر کی جانب سے جاری ہونا چاہیے تھا، نہ کہ گورنر کی جانب سے۔

ہائی کورٹ نے یہ اعتراض تسلیم کیا اور قرار دیا کہ گورنر کے پاس یہ آرڈیننس جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سرکاری وکیل کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ ہائی کورٹ کو قانون کو کالعدم قرار دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

 ہائی کورٹ نے اس ضمن میں دستور اور قانون کے بنیادی اصول واضح کرکے قرار دیا ہے کہ قانون کے متعلق عدالت کا بنیادی مفروضہ یہی ہوتا ہے کہ وہ دستور سے متصادم نہیں لیکن دو مواقع پر اس پر لازم ہے کہ وہ قانون کو کالعدم قرار دے۔

ایک) اس وقت جب قانون بنانے والے ادارے کے پاس وہ قانون بنانے کا اختیار ہی نہ ہو؛ اور

دوم ) جب یہ دستور کی کسی شق ، بالخصوص جب دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق، کی واضح خلاف ورزی ہوتی ہو۔

ہائی کورٹ نے اس زاویے سے ان قوانین پر شدید تنقید کی ہے اور انھیں نہ صرف دستور اور ضابطۂ فوجداری بلکہ آرمی ایکٹ کے بھی خلاف قرار دیا ہے اور کہا کہ ان نام نہاد حراستی مراکز میں قید لوگوں کو سالہا سال مقدمہ چلائے بغیر قید رکھا جاتا ہے، انھیں نہ رشتہ داروں سے ملنے دیا جاتا ہے، نہ ہی وکیل کرنے دیا جاتا ہے، نہ ہی انھیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے خلاف الزام ہے کیا؟

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پاکستان کے شہریوں کو غیر معینہ مدت کے لیے کسی بھی صورت حال میں افواج پاکستان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ عدالت نے کہا کہ دنیا بھر میں کہیں بھی احتیاطی حراست غیر معینہ مدت کے لیے نہیں ہوتی۔

فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ ریاست کے ہر ستون کو آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا تھا اور کوئی قانون بھی ایسا نہیں بننا چاہیے جو کسی ایک ستون کی منشا ہو۔

ہائی کورٹ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ایسی کیا ایمرجنسی پیدا ہوگئی تھی کہ اس قانون کو ایک آرڈیننس کے ذریعے جلدی میں پورے صوبے میں نافذ کیا گیا اور اس کو مقننہ کے سامنے پیش بھی نہیں کیا گیا؟

ہائی کورٹ نے ایک اور اہم بات کی طرف توجہ دلائی کہ اب جبکہ یہ آرڈی نینس جاری کیا گیا ہے تو دو مہینے گزرنے کے باوجود اس آرڈی نینس کو کسی ویب سائٹ پر نہیں ڈالا گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا؟

ہائی کورٹ نے اس بات کی بھی نشان دہی کی ہے کہ مذکورہ ریگولیشنز کا اجرا جون 2011 میں کیا گیا لیکن انھیں مؤثر بہ ماضی کرکے فروری 2008 سے نافذ کیا گیا ۔

چنانچہ ہائی کورٹ نے ان قوانین کے خلاف درخواستیں قبول کرتے ہوئے ان تمام قوانین اور ان کے تحت بنائے گئے ذیلی قوانین، قواعد، ضوابط اور نوٹیفیکیشنز کو کالعدم قرار د یا اور اس کے بعد درج ذیل احکامات جاری کیے ہیں

ایک) ہوم سیکرٹری کو حکم دیا گیا کہ وہ اس فیصلے کے موصول ہونے کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر تمام انٹرنمنٹ سینٹرز کو سب جیل قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کریں۔

دو) آئی جی جیل خانہ جات کو حکم دیا گیا کہ وہ ان تمام انٹرنمنٹ سینٹرز کو سب جیل قرار دیے جانے کے بعد تین دن کے اندر ان کو اپنے کنٹرول میں لے لیں۔

تین) آئی جی جیل خانہ جات کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ جن قیدیوں کے خلاف ابھی تک کوئی چارج نہیں لگایا گیا اور انھیں قید ہوئے 90 دن سے زائد ہوچکے ہیں، انھیں رہا کردیا جائےاور جن قیدیوں کے خلاف چارج لگایا گیا ہے انھیں قانون کے تحت اختیار رکھنے والی عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔

چار) ہوم سیکرٹری اور آئی جی جیل خانہ جات کو یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ ان احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اگر کسی قیدی کی زندگی یا آزادی کے حق کو نقصان پہنچا تو اس کےلیے یہ دونوں ذمہ دار ہوں گے۔

پانچ) ہوم سیکرٹری اور آئی جی جیل خانہ جات کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ تمام قیدیوں کی جامع فہرست تیار کرکے سات دنوں کے اندر اسے ان عدالتوں کے سامنے پیش کریں جہاں لاپتہ افراد کے مقدمات سنے جارہے ہیں۔

چھ) ہوم سیکرٹری اور آئی جی جیل خانہ جات کویہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ قیدیوں سے رشتہ داروں کی ملاقات کا بھی بندوبست کریں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان