آگے جانے نہیں دیں گے پیچھے تو جانے دیں گے: حافظ حسین احمد

ایک طرف تو آزادی مارچ کو روکنے کے لیے حکومتی کمیٹی مذاکرات کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب جے یو آئی ایف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ آزادی مارچ کا راستہ روکنا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہے۔

سینیئر سیاستدان اور جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ 27 اکتوبر سے اسلام آباد کی طرف بڑھتی ان کی جماعت کے آزادی مارچ کا راستہ روکنا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہے۔

بلوچستان حکومت کے اس بیان کہ ’صوبے میں کسی کو جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،‘ کے جواب میں انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مارچ کا راستہ روکیں گے تو وہ شاید جمعیت کی طاقت سے واقف نہیں ہیں۔‘

حافظ حسین احمد نے یہ ضرور کہا کہ ’اگر ہمیں آگے جانے نہیں دیں گے پیچھے تو جانے دیں گے نہ، پیچھے بلوچستان کی حکومت ہوگی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت نے آزادی مارچ کو روکنے کے لیے جے یو آئی کی قیادت کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سو فیصد اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

حافظ حسین احمد کے بقول: ’نو سے 11 سیاسی جماعتوں نے ان کو حمایت کا یقین دلایا ہے اور بعض تو ان کے ساتھ مارچ میں بھی شرکت کریں گی۔‘

دوسری جانب جمعے کو اسلام آباد میں حکومتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔

دونوں کمیٹیوں کے ممبران مذاکرات کے پہلے دور کے بعد میڈیا کو صرف اتنا ہی بتانے کے لیے آئے تھے کہ وہ اب اپنی قیادت سے بات کرنے جا رہے ہیں اور رات ساڑھے دس بجے دوبارہ آئیں گے۔

گذشتہ روز حکومتی کمیٹی کے رکن اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے ساتھ مذاکرات میں معاملات حل ہونے کا امکان ہے۔

تاہم جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران کے استعفی کے علاوہ بات نہیں ہوگی۔

مولانا فضل الرحمان کے اعلان کے مطابق یہ آزادی مارچ 27 اکتوبر کو سکھر سے روانا ہوگی اور 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگی۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان بھر سے لاکھوں لوگ اس مارچ میں شریک ہوں گے۔

ادھر بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے عندیہ دیا ہے کہ جے یو آئی کے آزادی مارچ کے لیے بلوچستان میں کسی کو جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بلوچستان میں حالات خراب ہیں اور جمعیت کے مارچ پر حملوں کا خطرہ ہے۔

وزیر داخلہ کے بیان کے جواب میں حافظ حسین احمد نے کہا :’وہ ہمیں دھمکی نہ دیں۔ دھماکے تو اب بھی ہورہے ہیں، تو آپ کہاں ہیں؟ کیا آپ کی وزارت صرف کھانے پینے کے لیے ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’آزادی مارچ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی حکومت کی کوشش آ بیل مجھے مار والی مثال ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ کسی صورت قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمعیت علما اسلام کے اعداد وشمار کے مطابق ملک بھر میں جمعیت کے کارکنوں کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے جس میں رضاکار بھی شامل ہیں اور وہ سب مارچ میں شرکت کے لیے تیار ہیں۔

حافظ حسین احمد نے کہا: ’ایک ہفتہ قبل سے ہمارے لوگوں کی گرفتاریاں جاری ہیں، ہمارے رضاکاروں پر پابندی لگانے کی بات ہورہی ہے۔ اگر ہمیں دیوار سے لگایا جاتا ہے اور قیادت کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اس کے بعد کارکن جو چاہیں کرسکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت پارٹی کے کارکنوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کرے گی تو تب بھی ’ہم کوشش کریں گے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں۔‘

انہوں نے کہا: ’جب تک ہماری قیادت موجود ہے ان کو ہدایت ہے کہ کارکنوں کے جذبات کو ٹھنڈا رکھیں تاہم قیادت کی گرفتاری کی صورت میں کارکن خود مختار ہوں گے۔ پھر حالات کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔‘

ان  کا کہنا تھا کہ جمعیت کے ضلعی عہدیداروں کو اپنی سہولت کے مطابق اسلام آباد جانے کی ہدایت کی گئی اور ’ہم حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی تبدیل کرسکتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست