ٹیکنالوجی پشاور کے آرٹسٹ کھا گئی

ایک زمانے میں سینما گھروں کے بل بورڈز بنانے والے مصوروں اور رنگ سازوں کی اتنی ڈیمانڈ تھی کہ مہینوں مہینوں انہیں فرصت نہیں ملتی تھی، لیکن اب پینافلیکس جیسی ٹیکنالوجی کی آمد نے ان سے یہ روزگار چھین لیا ہے۔

بالی وڈ کے چمکتے ستاروں کے آبائی شہر پشاور میں جہاں کبھی 14 سینما گھر ہوا کرتے تھے اب گھٹ کر آدھے رہ گئے ہیں۔ ان سینما گھروں کے ساتھ سینکڑوں افراد بل بورڈز بنانے کے روزگار سے وابستہ تھے لیکن اب گنے چنے سینما گھروں اور پینافلیکس جیسی ٹیکنالوجی کی آمد نے ان کمرشل آرٹسٹوں اور رنگ سازوں سے روزگار چھین لیا ہے۔

پشاور کے استاد اورنگزیب خان اس کاروبار کے عروج و زوال کی داستان سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب اس شہر میں صرف دو یا چار کمرشل آرٹسٹس رہ گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایک فلم کے لیے جہازی سائز کے بل بورڈز بنانے پر انہیں 70 ہزار روپے سے زائد کی اجرت ادا کی جاتی تھی، جو آج کے حساب سے لاکھوں کی کمائی کہی جا سکتی ہے اور ان کے کام کی ڈیمانڈ اتنی تھی کہ مہینوں مہینوں انہیں فرصت نہیں ملتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 پشاور میں اس وقت آٹھ کے قریب سینما گھر ہیں، جو ملک کے دیگر سینما گھروں کی طرح پینا فلیکس کے ذریعے ہائی ڈیفینیشن اصل تصویروں کو جہازی سائز میں بڑا کر کے لگاتے ہیں۔ اب پشاور کے ان کمرشل مصوروں اور رنگ سازوں کی ضرورت ہی نہیں رہی جبکہ ایک زمانے میں ایک بل بورڈ کو بنانے کے لیے درجن بھر افراد دن رات کام کرتے تھے۔

پشاور میں وہ کمرشل مصور جو کبھی سینما گھروں کے لیے بڑے بڑے بل بورڈز بنا کر اچھی خاصی کمائی کر کے خوشحال زندگی گزار رہے تھے، اب رکشوں اور دیگر سواریوں پر نقش ونگار بنا کر انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی کے شب و روز بسر کر رہے ہیں۔

 بد قسمتی سے پشاور میں نیشنل کالج آف آرٹس جیسا کوئی آزاد اور مستحکم ادارہ بھی نہیں جو اس قسم کے فنونِ لطیفہ کی سر پرستی کرے۔

استاد اورنگزیب خان کا کہنا ہے کہ پشاور میں اب اُن سمیت صرف دو یا چار کمرشل آرٹسٹس رہ گئے ہیں اور انہیں اس فن کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے مستقبل کی ایک تصویر تخلیق کی ہے جس میں وہ ایک تھکے ہارے، مایوس مزدور نظر آتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا