’طبلہ بنانا چھوڑنا بھی چاہیں تو نہیں چھوڑ سکتے‘

راولپنڈی کے طفیل لبہ کا کہنا ہے کہ یہ فن ان کو اپنی دادی کے جہیز میں ورثے میں ملا تھا اور اب وہ اس کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔

طفیل لبہ گذشتہ 50 برس سے طبلہ بنانے کے فن سے منسلک ہیں۔ یہ فن ان کو اپنی دادی کے جہیز میں ورثے میں ملا تھا۔ ان کے خاندان کی سات نسلیں طبلہ بنانے کے فن سے منسلک رہی ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان بھر میں اس وقت پانچ کاریگر ہیں جو طبلہ بنانے میں ماہر ہیں، جنہوں نے اس فن کو باقاعدہ سیکھا ہے اور اس میں اپنا نام پیدا کیا ہے۔

طفیل نے بتایا کہ اس ہنر کو زندہ رکھنے کی لوگوں کی ذاتی کوششوں کے باوجود حکومت کی طرف سے طبلہ سازوں کو کوئی خاطر خواہ پذیرائی نہیں دی جاتی۔

طفیل لبہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے باپ دادا کے نام کو مرنے نہیں دیں گے اسی لیے انہوں نے اس فن کو آگے بڑھایا اور اب ان کا بیٹا بھی اس فن میں اپنا نام پیدا کرنے کی جستجو میں ہے۔
 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاتھ کے بنائے ہوئے طبلے نامور استادوں نے بھی استعمال کیے ہیں اور نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں ان کے اور ان کے والد کے ہاتھ کے بنے ہوئے طبلے ایک زمانے میں بہت مشہور ہوا کرتے تھے، تاہم اب حالات ویسے نہیں رہے ہیں۔

 طفیل کے مطابق: ’جن لوگوں نے اس فن کو سیکھا ہے اور جنہوں نے نہیں سیکھا وہ بھی طبلے بنا رہے ہیں اور دونوں کو ایک جیسی ہی اجرت مل رہی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ نہ تو اب طبلے بنانے والے ہنرمند استاد رہے ہیں اور نہ ہی بجانے والے نامور لوگ۔ ’اب جیسا بھی کوئی طبلہ بنا رہا ہے بجانے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اچھا ہے یا برا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا