’بل میں کم عمر شادی شدہ لڑکیوں پر تشدد کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے‘

تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کی خیبر پختونخوا حکومت نے پانچ سال کے طویل انتظار کے بعد بالاخر گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے مجوزہ قانونی بل صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا ہے

انڈیا میں گھریلو  تشدد کے خلاف آگہی مہم کی ایک تقریب کا منظر۔  فوٹو:اے ایف پی

تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کی خیبر پختونخوا حکومت نے پانچ سال کے طویل انتظار کے بعد بالاخر گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے مجوزہ قانونی بل پیر (11 فروری) صوبائی اسمبلی میں پیش کردیا۔

اس مجوزہ بل پر خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تنظمیوں کی جانب سے اعتراضات بھی اٹھائیں گئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ حکومت نے یہ بل بغیر کسی  مشورے کے پیش کیا ہے۔

گھریلو تشدد کو  روکنے کے لیے یہ بل تحریک انصاف کی حکومت نے گذشتہ دور حکومت 2014 میں تیار کیا تھا لیکن  تاحال منظور نہ ہو سکا۔ اس کی منظوری نہ ہونے کی بنیادی وجہ اس مجوزہ بل پر اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے اعتراضات تھے۔

جب 2014 میں یہ بل سامنے آیا تو خیبر پختونخوا حکومت نے مشورے کے لیے اس کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجوایا تھا جس پر کونسل نے بل کی 32 میں سے 28 شقوں پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے ان کو مسترد کر دیا۔

خیبر پختونخوا واحد صوبہ تھا جہاں پر گھریلو تشدد کے بارے میں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی تھی جبکہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان نے 2013 اور 2014  میں گھریلو تشدد کے حوالے سے قانون سازی کی ہے۔

ملزم کی تعریف میں لکھا گیا ہے کہ ’ملزم سے مراد وہ فرد ہو گا جس  کی متاثرہ خاتون کے ساتھ گھریلو رشتہ داری  ہو اور اس نے ملزم سے حفاظت مانگنے کی درخواست کی ہو۔‘

عورت فاونڈیشن گذشتہ 30 سال سے پاکستان میں عورتوں کی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ہے۔ یہ تنظیم مجوزہ بل میں ملزم کی اس تعریف کو اچھی نظر سے دیکھتی ہے۔

عورت فاونڈیشن کی صائمہ منیر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ گھریلوں تشدد جو بھی کریں ان کو سزا ملنی چاہیے۔

پنجاب اور سندھ کے گھریلوں تشدد کے بارے میں بل کو اگر دیکھا جائے تو وہاں پر ملزم کی تعریف میں مرد لکھا گیا ہے جبکہ متاثرہ شخص کی تعریف میں صرف خاتون کو شامل کیا گیا ہے۔

صائمہ منیر نے بل میں کچھ تعریفوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بل میں  ’معاشی دباو’   کی تعریف میں یہ لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی ملزم  کسی بھی شخص کو اس کے  قانونی حق جس میں روٹی، کپڑا ور مکان سے انکار کریں تو  یہ معاشی دباو  کی  زمرے میں آئے گا۔

تاہم صائمہ منیر نے نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ تر گھریلوں واقعات میں شوہر اپنی بیوی یا بچوں کی صحت کا خیال نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کو ہسپتال لے جانے کی زحمت کرتے ہیں۔

’اس بل میں روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ دیگر معاملات جیسے کہ صحت، بہتر خوراک اور نان نفقہ کو بھی شامل کرنا چاہیے تھا۔‘

‘کم عمر شادی شادیوں لڑکیوں کا بل میں کوئی ذکر نہیں‘

صائمہ منیر نے بتایا کہ بل میں کمزور اشخاص کی تعریف  میں وہ لوگ شامل کیے ہیں جو 18 سال سے زائد اور شادی شدہ ہو لیکن اس میں مسئلہ یہ پیدا ہو گا کہ کہ زیادہ تر واقعات میں کم عمر شادی شدہ لڑکیوں کے ساتھ بھی گھریلو تشدد ہوتا ہے۔

’اس بل میں بچوں پر گھریلو تشدد کا ذکر ہے اور نہ دیگر کمزور طبقے جیسا کہ خواجہ سراوں پر گھریلو تشدد کو بل میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ حکومت کی خانہ پوری کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیونکہ ان کو اس بات پر بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ گذشتہ چھ سالوں سے حکومت میں رہنے کی باوجود یہ بل منظور نہ کر سکے۔‘

اس بل کے تحت 11 رکنی ‘ضلعی تحفظ  کمیٹی‘ کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو ڈپٹی کمشنر، محکمہ صحت کے افسران، حکومتی وکیل، پولیس اور سول سوسائٹی کے چار ارکان پر مشتمل ہو گی۔ کمیٹی گھریلوں تشدد کی شکایات کو دیکھے گی اور متاثرہ شخص کو معاونت فراہم کرے گی۔

شکایت کرنے والا شخص ضلعی کمیٹی میں درخواست جمع کرے گا اور کمیٹی ہر کیس کی جانچ پڑتال کر کے متاثرہ شخص کو مناسب مدد  فراہم کرے گی اور ساتھ میں متاثرہ شخص کو رہنے کے لیے محفوظ جگہ بھی دے گی۔

کمیٹی اگر ضرورت محسوس کرے تو کمیٹی چیرمین، متاثرہ شخص یا متاثر شخص کی سرپرست عدالتی کی مدد  حاصل کرنے کے لیے شکایت کے 15 دنوں کے اندر عدالت میں درخواست جمع کرے گی۔

عدالت گھریلو تشدد کے واقعات کو روزانہ کی بنیاد پر سنے گی اور 60 دنوں کے اندر فیصلہ سنائے گی۔ تاہم عدالت اگر کسی بھی وجہ سے مقدمے کی سماعت کو برخاست کرنا چاہتی ہے تو دو دن کے لیے کر سکتی ہے۔

بل کی شق نمبر 16 میں لکھا گیا ہے کہ اگر عدالتی فیصلے پر عملد درآمد نہ کرنے کی صورت میں تین ماہ قید اور30  ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کی تجویز ہے۔

اس کے علاوہ ضلعی کمیٹی ٹول فری شکایات ہیلپ لائن قائم کرے گی تاکہ لوگوں کی شکایات سنیں اور اس پر بروقت کارروائی کرے۔ اس نئے بل کے تحت پہلے سے موجود شلٹر ہومز کو قانونی حیثیت دی جائے گی۔

بل کے شق نمبر18  میں لکھا گیا ہے کہ اگر کسی نے غلط الزام لگایا اور عدالت میں ثابت ہو گیا تو شکایت کرنے والے شخص پر 50  ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کی تجویز ہے۔

صائمہ  منیر کہتی ہیں کہ یہ جرمانہ بھی بہت زیادہ ہے اور ڈر ہے کہ زیادہ تر غریب خواتین یہ سوچیں گی کہ اگر الزام ثابت نہیں کیا تو 50 ہزار روپے کہاں سے ادا کریں گے۔

’اگر کسی خاتون کو تھپڑ دیا جائے یا کسی ایسی جگہ پر تشدد کیا جائے جو نشان نہیں چھوڑتا تو شکایت کرنے والی خاتون کو الزام ثابت کرنے میں ضرور مسئلہ ہوگا۔‘

سزائیں کیا تجویز کی گئی ہیں؟

قانون میں سزاوں کے بارے میں تفصیل سے بات نہیں کی گئی ہے۔ تاہم اس میں یہ لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی خاتون پر تشدد کا مرتکب پایا گیا تو ان کو وہ سزائیں دی جائے گی جو تعزیرات پاکستان کی شق نمبر 45 میں تجویز کی گئی ہیں۔

تعزیرات پاکستان کی اس شق میں مختلف جرائم کے لیے مختلف سزائیں تجویز کی گئی ہیں جیسا کہ قتل کی سزا سزائے موت یا عمر قید کی ہے۔ اس کے مقابلے میں پنجاب اور سندھ کے قوانین میں ہر ایک جرم کے لیے گھریلو تشدد کی روک تھام کے بل میں واضح سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان