’شوہر اور بچوں کو بائیک پر کراچی کی سیر کرواتی ہوں‘

’شروعات میں میرے شوہر اور بھائی نے کافی مخالفت کی، محلے والے عجیب نظروں سے دیکھتے تھے لیکن اس وقت کچھ معاشی مسائل کے باعث میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔‘

سلمان صوفی فاؤنڈیشن نے یو این ویمن، یو این ڈٰی پی اور حکومتِ سندھ کے اشتراک سے پنجاب کے بعد اب سندھ میں خواتین بائیکرز کی تربیتی مہم ’ویمن آن وہیلز‘ کا آغاز کیا ہے 

گذشتہ روز کراچی کے فریئر ہال میں ’ویمن آن وہیلز‘ کی افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کے دوران ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے موٹر بائیک ٹریننگ کے لیے اپنے نام درج کروائے۔ تقریب کے اختتام پر خواتین بائیکرز نے ریلی بھی نکالی جس میں صوبائی وزیر برائے ترقیِ خواتین شہلا رضا نے خاتون بائیکر کے پیچھے بیٹھ کر بھرپور حصہ لیا۔

جامعہ کراچی میں آج سے خواتین کی موٹر بائیک ٹریننگ کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔

سلمان صوفی فاؤنڈیشن نے یو این ویمن، یو این ڈٰی پی اور حکومتِ سندھ کے اشتراک سے پنجاب کے بعد اب سندھ میں خواتین بائیکرز کی تربیتی مہم ’ویمن آن وہیلز‘ کا آغاز کیا ہے۔ اس پروگرام کی مینیجر حفصہ لک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس ٹرینگ پروگرام کی آن لائن ریجسٹریشن کے عمل میں صرف تین ہفتوں کے اندر ہی ہمیں 7500 خواتین کی درخواست موصول ہوئی ہیں ۔‘

اس موٹر بائیک ٹریننگ پروگرام میں نام درج کروانے کے لیے خواتین کی اہلیت کا کیا معیار ہے اور کتنی فیس ہے؟

اس سوال کے جواب میں حفصہ لک کا کہنا تھا کہ ’یہ ٹریننگ سلمان صوفی فاؤنڈیشن کی جانب سے ویمن آن وہیلز مہم کے تحت کسی بھی معاوضے کے بغیر فراہم کی جا رہی ہے اور جہاں تک معیار کی بات ہے تو کوئی بھی خاتون جو بائیک چلانے کا شوق رکھتی ہیں یا ضروت کے تحت بائیک چلانے کی تربیت لینا چاہتی ہیں وہ اس ٹریننگ پروگرام میں اپنے نام کا اندراج کروا سکتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حفصہ کا مزید کہنا تھا کہ ’اب تک ہمارے پاس جو درخواستیں موصول ہوئی ہیں ان میں 18 سال سے لے کر 50 سال تک کی خواتین بھی موجود ہیں اور ناصرف طالبِ علم بلکہ کئی گھریلو خواتین اور ورکنگ ویمن بھی شامل ہیں۔‘

اس تربیتی پروگرام کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کو تین مختلف بیچز میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ہر بیچ کی تربیت مختلف سینٹر میں ہوگی۔ آج سے جامعہ کراچی میں پہلے بیچ کی تربیت کا آغاز ہو رہا ہے جس کے بعد مارچ 2020 تک کراچی میں دو اور سینٹرز پر تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا جائے گا۔ کراچی کے بعد سندھ کے دیگر بڑے شہروں میں بھی اس مہم کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔

 ویمن آن وہیلز کی پروگرام مینیجر حفصہ لک کے مطابق آٹھ مارچ 2020 کو خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر ایک بڑی ریلی کا انعقاد بھی کیا جائے گا جس میں تربیت یافتہ خواتین بائیکرز بھی حصہ لیں گی۔

گذشتہ روز فریئر ہال کراچی میں ہونے والی تقریب میں ان چند خواتین نے بھی شرکت کی جو پچھلے کئی سالوں سے کراچی میں موٹر بائیک چلا رہی ہیں اور دوسری خواتین کو ٹریننگ بھی فراہم کرتی ہیں۔ ’راؤڈی رائیڈرز‘ کی شریک بانی سکینہ اشفاق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میرے چار بچے ہیں اور میں پچھلے چار سال سے بائیک چلا رہی ہوں، شروعات میں میرے شوہر اور بھائی نے کافی مخالفت کی، محلے والے عجیب نظروں سے دیکھتے تھے لیکن اس وقت کچھ معاشی مسائل کے باعث میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔‘

سکینہ نے بتایا کہ ’میرے شوہر مجھ سے کہتے تھے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم کراچی کی سڑکوں پر بائیک چلاتی ہو لیکن حال ہی میں جب میرے شوہر کو دل کا دورہ پڑا اور ایمرجنسی میں ایمبولینس بلوانے کا وقت نہیں تھا تو میں انہیں جود بائیک چلا کر جناح ہسپتال لے کے گئی۔ اس دن کے بعد سے میرے شوہر نے ایک بار بھی میرے بائیک چلانے پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اب تو میں شوہر اور بچوں کو بائیک پر بیٹھا کر پورے کراچی کی سیر کرواتی ہوں۔‘

’راؤڈی رائیڈرز‘ کی شریک بانی سکینہ اشفاق کا تعلق بوہرہ کمیونٹی سے ہے۔ اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین ایک خاص برقع زیب تن کرتی ہیں جسے ’ردا‘ کہا جاتا ہے۔ سکینہ کا کہنا تھا کہ ’یہ ردا میری پہچان ہے اور میں برقع پہن کر بائیک چلانے میں ذیادہ محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ اس لیے یہ تاثر غلط ہے کہ خواتین کا سڑکوں پر بائیک چلانا بے حیائی بھیلا رہا ہے۔‘

وہیں اس ریلی میں شریک خاتون بائیکر جو پاکستان میں کھانا ڈیلیور کرنے والی ایپ ’فوڈ پانڈا` کی پہلی خاتون رائیڈر بھی ہیں نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ ’ہمارے معاشرے میں اب بھی خواتین کو سفر کے دوران مشکلات اور جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بس سٹاپ پر کھڑی خواتین کو گندے اشارے کئے جاتے ہیں، ان پر گندے جملے کسے جاتے ہیں، پبلک بسوں میں بیٹھی خواتین کو اکثرمرد پیسنجرسیٹوں کے درمیان والی جگہ سے اپنا انگلیاں ڈال کرچھونے کی کوشش کرتے ہیں یا بس کنڈکٹر پیسے لینے کے بہانے ہاتھ چھو لیتا ہے، رکشے یا اوبر کریم میں بھی اکثر ڈرائیور خواتین سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر خواتین کو خودمختاری سے سفر کرنے کی سہولت فراہم کی جائے تو کیا اس فعل کو بے حیائی، جہالت کی ترویج اور عورت کی نمائش کہنا درست ہے؟‘

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین