وائرل ہونے والی نازیبا ویڈیو فاطمہ سہیل کی نہیں ہے: ایف آئی اے

سائبر کرائم ونگ کی فارنزک ڈیپارٹمنٹ نے اس ویڈیو کا فارینزک ٹیسٹ کیا ہے اور اس ویڈیو مِیں دیکھی جانے والی خاتون فاطمہ سہیل نہیں ہیں بلکہ ان سے ملتی جلتی خاتون ہیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے درخواست کر دی گئی ہے اور جلد اس ویڈیو کو ہٹا دیا جائے گا۔(فوٹو: فیس بک)

سوشل میڈیا پرنازیبا وڈیوز وائرل ہونا ایک معمول کی بات بن گئی ہے۔ خاص طور پر اس کی زد میں شوبز کے افراد زیادہ بدنام ہوجاتے ہیں کیوں کہ انہیں ہم سب ہی جانتے ہیں۔

جیسے ہی ان کی کوئی نازیبا ویڈیو یا تصویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوتی ہے تو چند منٹوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ اس کی خبریں بھی اسی رفتار سے گرم ہو جاتی ہیں۔

چند برس قبل مشہور فلم ایکٹرس میرا، کچھ عرصہ قبل معروف گلوکارہ رابی پیرزادہ اور اس کے بعد چند ہفتے قبل ماڈل ثمرہ چوہدری کی نازیبا ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ گذشتہ دو چار روز سے پھر سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتی دکھائی دے رہی ہے اور عوام اسے سماجی رابطوں کی سبھی سائٹس پر بڑے دھڑلے سے شئیر کر رہی ہے۔

اس ویڈیو میں دیکھی جانے والی خاتون کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ نیوز میڈیا سے تعلق رکھنے والی فاطمہ سہیل ہیں۔ اور انہی کے نام سے یہ ویڈیو وائرل کی جارہی ہے۔

اس ویڈیو کے حوالے سے جب فاطمہ سہیل سے انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو ان کا نمبر رسائی سے باہر تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے ان کی بہن عائشہ سہیل جو لاہور کے ایک نجی نیوز چینل کی اینکر پرسن ہیں ان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ ’اس ویڈیو میں دیکھی جانے والی لڑکی فاطمہ سہیل نہیں ہیں۔‘ انہوں نے اس ویڈیو کی تشہیر کا الزام ان کے سابق شوہر پر عائد کیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ عرصہ پہلے محسن عباس اور ان کی سابقہ اہلیہ فاطمہ سہیل دونوں ہی خبروں میں رہے تھے۔ یہ اس وقت ہوا تھا جب فاطمہ سہیل نے فیس بک پر اپنا ایک سٹیٹس شئیر کیا تھا اپنی چند تصاویر کے ساتھ کہ محسن عباس انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ خبر کافی عرصہ تک گرم رہی اور پھر بات فاطمہ سہیل کے خلع لینے پر ختم ہوئی۔

فاطمہ سہیل اس وقت عدت میں ہیں لیکن تقریباً ایک ماہ پہلے وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ کراچی شفٹ ہو گئی تھیں چونکہ انہیں وہاں ایک نجی چینل میں اینکرنگ کی نوکری مل چکی تھی۔

فاطمہ سہیل کی بہن عائشہ سہیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے ایف آئی اے کو درخواست کر دی ہے کہ وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھی جانے والی لڑکی فاطمہ سہیل نہیں ہیں اور ان کا نام غلط استعمال کیا جارہا ہے۔

انہوں نے درخواست میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ سب  ان کے کرئیر اور خاندان کے لیے ٹھیک نہیں لہذا اس ویڈیو کو شئیر کرنے والے تمام لنکس کو بند کیا جائے اور انہیں سوشل میڈیا سے ہٹایا جائے۔

فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی کے سائبر کرائم ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر سرفراز چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں یہ ویڈیو موصول ہوئی ہے اور فاطمہ سہیل نے جمعرات کی صبح اپنے وکیل زین قریشی کے ذریعے ایک بیان ریکارڈ کروایا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اس ویڈیو میں دیکھی جانے والی خاتون میں نہیں ہوں اور میرا نام غلط استعمال کیا جارہا ہے اس لیے اسے فوری طور پر ہٹایا جائے ۔

سرفراز چوہدری کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو لکھ دیا گیا ہے اور جلد اس ویڈیو کو ہٹا دیا جائے گا۔

سرفراز چوہدری نے یہ بھی بتایا کہ سائبر کرائم ونگ کی فارنزک ڈیپارٹمنٹ نے اس ویڈیو کا فارینزک ٹیسٹ کیا ہے اور اس ویڈیو مِیں دیکھی جانے والی خاتون فاطمہ سہیل نہیں ہیں بلکہ ان سے ملتی جلتی خاتون ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جانچ انہوں نے چہرے کے نقوش کے ذریعے کی ہے جیسے ناک اور بھنوؤں کے درمیاں کا فاصلہ وغیرہ۔

ان کا کہنا تھا کہ فاطمہ سہیل نے چند ماہ قبل اپنے سابقہ شوہر محسن عباس حیدر کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں شکایت درج کروائی تھی کہ ان کے شوہر ان کے ساتھ لی گئی کچھ ذاتی تصاویر کو سوشل میڈیا پر پھیلا رہے ہیں لہذا انہیں ہٹایا جائے  مگر ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ تصاویر کوئی خاص نازیبا تصاویر نہیں تھیں بس میاں بیوی کی تصاویر تھیں۔

اس سارے معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے فاطمہ سہیل کے سابقہ شوہر محسن عباس کو متعدد بار ٹیلی فون کیا اور پیغام بھی بھیجے مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن