ایک کشمیری کی پاکستانیوں کو نصیحت

کشمیری پاکستان سے کہنا چاہتے ہیں کہ ’ہم پر ایک عنایت کیجیے آپ اپنے ملک کی سالمیت قائم رکھنے کا ہنر سیکھیں، آزادی کی قدر کرنا سیکھیں یا بقائے باہمی کا جذبہ پیدا کریں ورنہ آپ کا دشمن آپ کو نگلنے کی تیاری میں مصروف ہے۔‘

سری نگر میں گذشتہ روز کشمیری طلبہ ایک سرکاری دفتر میں انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ کشمیریوں سے پوچھ لو کہ آزادی حاصل کرنے کی کتنی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے (اے ایف پی)

پاکستان میں کیا سب غدار ہیں؟
فوجی غدار...
سیاستدان غدار...
جج غدار...
انسانی حقوق کے ادارے غدار...
وکلا، ڈاکٹر، مولوی اور دیندار غدار...
صحافی غدار...

پاکستان کے 18 کروڑ عوام میں کوئی ایک خدا کا بندہ ہے جو غدار نہیں؟ جب سے جنرل پرویز مشرف کو غدار قرار دے کر ان کی لاش کو لٹکانے کا فیصلہ سنایا گیا ہے، کشمیریوں کو قائد اعظم پر غصہ ہی نہیں بلکہ افسوس بھی ہو رہا ہے کہ انہوں نے کس قوم کو آزادی دلائی اور کن لوگوں کے لیے ایک ملک حاصل کیا۔ کیا وہ اس آزادی کے لائق تھے یا پھر برصغیر کے 60 کروڑ مسلمانوں کو اس کی تہذیب ہی نہیں تھی۔

جن مسلمانوں کو آزادی دلا کر ایک اپنی مملکت پیش کی انہیں اس کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں اور جو مسلمان ان کی مخالفت میں بھارت کو گلے لگا کے بیٹھے تھے وہ اس وقت اپنے وجود کی لڑائی میں گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ کشمیری پاکستانی عوام سے کہنا چاہتے ہیں کہ آزادی کے 70 سال بعد بھی آپ میں قومیت کا جذبہ کیوں غائب ہے؟ آپ کے رہنما سولی پر کیوں لٹکائے جاتے ہیں، قتل کئے جاتے ہیں یا ملک بدر کئے جاتے ہیں؟ کیا یہ سلسلہ کبھی بند نہیں ہو گا؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ غیرجمہوری ہونا ہمارا مشترکہ عیب بن گیا ہے؟ یا ایک مذہب کےباوجود وطن پرستی کا جذبہ ہماری قوم میں سرے سے غائب ہے یا پھر جن لوگوں کو مفت میں آزادی ایک پلیٹ پر پیش کی گئی ہے وہ بدمست ہو گئے ہیں یا پھر سکیورٹی اداروں کو انتظامیہ چلانے کا چسکہ لگ گیا ہے؟

قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ پاکستان حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس ایک ٹائپ رائٹر اور ایک کلرک ہونا کافی ہے۔ وہ سامراجی طاقت اور ہندوستانی قیادت سے مسلمانوں کے لیے الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ شاید ان کا جذبہ ایمان اتنا پختہ اور قومیت اتنی مضبوط تھی کہ انہیں اس بات کا پکا یقین تھا کہ وہ اپنے خواب کو حقیقت بنا دیں گے لیکن جن لوگوں کے لیے انہوں نے یہ معجزہ کر دکھایا وہ اب تک اداروں میں ہم آہنگی پیدا نہ کرسکے، ایک ایسا رہنما نہ دے سکے جو اس ملک کی نوک پلک دیانت داری سے سنوار سکے یا کم از کم غداری کے القاب سے بچ سکے۔

ایک درجن سے زائد حکمران بدعنوانی کے کیسوں میں بند ہیں، کوئی ہے جس پر بددیانتی کا الزام نہیں ہے، جن سائنس دانوں نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا ان کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ کسی کو احمدی تو کسی کو شیعہ تو کسی کو خدا کا ٹھیکیدار ٹھہرایا جاتا ہے۔

جو بھی حکمران بن گیا وہ چاہیے فوجی ہے یا سول، وہ ملک و قوم کا لٹیرا کہلایا۔ کیا قوم کو لیڈر کی شناخت نہیں ہے یا بقول غفار خان ’ہجوم جمع کرنے سے قوم نہیں بنائی جاسکتی۔‘ یا پھر مسلمان سیاستدانوں میں رہنما بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔

دنیا کو انتظار ہے کہ عمران خان پر غداری کا لیبل کب چسپاں ہو گا؟ یہ اس قوم کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔ آزادی کیا ملی کہ ملک میں قتل و غارت گری، لوٹ کھسوٹ اور سازشوں کا دور شروع  ہوا۔ کیا یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک آپ کے دشمن اس ملک کے درجن حصے کر دیں گے؟

چند خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری نے اس ملک کے کروڑوں عوام کو یرغمال بنا دیا ہے۔ بےچین کر دیا ہے، غیریقینی صورت حال میں مبتلا کر دیا ہے۔ ملک کی بدصورت سیاست نے قومیت کو تار تار کر دیا ہے۔ فوجی حکمران سیاسی لیڈروں کا تعاقب کر رہے ہیں، سیاست دان بیرونی ملکوں میں تحریکیں چلا رہے ہیں، اندرونی ساز باز سے دشمن کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ ملک کا ایک بٹوارہ ہوا مزید کتنے ہوں گے؟ کیا ایک رہنما بھی نہیں جو بردباری کا مظاہرہ کرے، اس ملک کو ایک صحیح سمت عطا کرے؟

جس ملک سے آپ 70 سال سے لڑتے رہے ہوں  کم از کم اسی ملک کی سیاسی بصیرت سے کچھ سیکھ لیتے۔ جہاں سیاسی اتھل پتھل کے باوجود قومی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دی جاتی۔ ہر ایک شخص، ہر پارٹی اور ہر ادارہ قومی مفادات کی خاطر متحد ہے۔ بی جے پی کی حکومت نے کشمیر کو نگل لیا جسے آپ شہہ رگ کہتے ہو، مخالف جماعتوں نے خاموشی سے اس پر لبیک کہا۔ بیس کروڑ مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا عمل شروع ہوا ہے اپوزیشن جماعتیں مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے ملک کی امیج کو برقرار رکھنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے مابین چوہے بلی کا رشتہ ہے مگر جب ملک کی سلامتی اور سالمیت کا سوال آتا ہے، کشمیر کو الجھانا ہوتا ہے یا اداروں کو بچانا ہوتا ہے وہاں دونوں سیاسی اور انفرادی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک آواز ہو جاتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

  بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست جتنی سیاہ ہوتی جا رہی ہے اس سے سیاہ ترین اداروں کی تال میل ہے جہاں ملکی مفادات کو پس پشت ڈال کر ذاتی پسند و نا پسند کا خیال رکھا جاتا ہے۔

کشمیریوں سے پوچھ لو کہ آزادی حاصل کرنے کی کتنی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے، صدیاں، نسلیں، سکون، جانیں اور جائدادیں قربان کرنا پڑتی ہیں۔ تمہیں کیا معلوم قربانی کیا ہوتی ہے، اپنے نوجوانوں کے عزیز جانوں کا نظرانہ پیش کرنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اپنی بیٹیوں کی عصمتیں تار تار ہونا کتنا رلا دیتا ہے۔ سب کو جناح جیسا رہنما نہیں ملتا، سب کی تقدیر آپ جیسی نہیں ہوتی۔.
جب آپ کے ملک میں سیاسی رسہ کشی ہوتی ہے یا اداروں میں ٹھن جاتی ہے یا جمہوریت پر کاری ضرب لگتی ہے یا حکمرانوں کو غدار ٹھہرایا جاتا ہے یا ہر لیڈر کو ملک بدر کیا جاتا ہے کشمیری قوم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان سے پوچھیے کہ یہ قوم آپ کی وجہ سے کس درد میں مبتلا ہو جاتی ہے اور یہ احساس شاید آپ کو اتنا گہرا نہ ہو کیونکہ آپ کے لیے قومیت، شناخت یا امہ محض الفاظ رہ گئے ہیں۔

کشمیری پاکستان سےکہنا چاہتے ہیں کہ ’ہم پر ایک عنایت کیجیے آپ اپنے ملک کی سالمیت قائم رکھنے کا ہنر سیکھیں، آزادی کی قدر کرنا سیکھیں یا بقائے باہمی کا جذبہ پیدا کریں ورنہ آپ کا دشمن آپ کو نگلنے کی تیاری میں مصروف ہے۔‘ اس نے اپنی پارلیمان میں اس بات کا بگل بجا دیا ہے اور اپنا ہندو راشٹر افغانستان سے لے کر ملائیشیا تک وسیع کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے۔ ہماری فکر کرنا چھوڑ دیں ہمارے لیے پاکستان کا وجود قائم رہے وہی کافی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ